اس معاملے پر ایڈوکیٹ دہلی ہائی کورٹ مسرور حسن صدیقی نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے مسلم اداروں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف منظم طریقے سے سازش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت میں بیکار کی پٹیشن دائر کر کے عدالتوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اور مسلمانوں میں خوف و ڈر کا ماحول بنایا جارہا ہے تاکہ مسلمان اپنے کام کاج کو چھوڑ کر ان سب فضول کی رخنہ اندازی میں ہی پھنسے رہیں۔
مسرور حسن صدیقی نے بتایا کہ' بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ، تین طلاق، کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی، سی اے اے اور این آر سی کے متنازع بل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار، جموں کشمیر میں ہندوؤں کو اقلیت کا درجہ دینا جیسے معاملات شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قانون میں وقف جائیداد کو خاص درجہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کا تحفظ کیا جاسکے جبکہ دیگر سوسائٹی کی جائیداد کے تحفظ کے لیے کوئی ایسا انتظام نہیں ہے اس لیے وقف ایکٹ 1995 آئین کی دفعہ 26، 27، 15،14 ،300 کو پامال کرتا ہے۔
مزید پڑھیں:
معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع سے خصوصی گفتگو
انہوں نے مزید کہاکہ' دفعہ 54، 55 کے تحت وقف جائیداد سے ناجائز قابضین کو ہٹانے کا بھی حق رکھتا ہے پیٹیشن میں کہا گیا ہے کہ وقف کو کوئی خصوصی درجہ نہیں دیا گیا ہے اس وقف دوسرے چیریٹیبل اداروں ٹرسٹ مٹھ یا غیر اسلامی اداروں کے برابر ہی ہے اس لیے وقف ایکٹ کے تحت وقف بورڈ کو اختیار دینا غیر آئینی ہے۔