مختار عباس نقوی نے ایوان میں صدر کی تقریر کے شکریہ کی تجویز پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت ایمان، اقبال اور انصاف کی ہے، یہ حکومت ہر شخص کی خوشحالی کے لیے کام کرتی ہے، حکومت کا مقصد سب کا ساتھ، سب کا وشواس اور سماج کےسبھی زمروں کو بااختیار بنانا ہے۔
انہوں نے سی اے اے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کے شاہین باغ کے مظاہرے میں خواتین اور بچوں کو گمراہ کیا جارہا ہے، اپوزیشن اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے خواتین اوربچوں کو استعمال کررہی ہے، کوئی ہے جو خواتین اور بچوں کے درمیان بندوق لہراتا ہے، یہ تشدد بھڑکانے کی گہری سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ’سی اے اے سے کسی بھارتی کی شہریت نہیں جائے گی اور اگر ایسا ہوگا تو سب سے پہلے مختار عباس نقوی اورغلام نبی آزاد کی شہریت ختم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کروڑوں لوگوں کو کوئی نہیں ہٹا سکتا، اپوزیشن سماج کے ایک بڑے حصے میں خوف پیدا کرکے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کررہے ہیں۔
کئی ریاستوں کے ذریعہ سی اے اے کے خلاف تجویز پاس کرنے پر انہوں نے کہا کہ اپوزیشن غلط روایت کی ابتدا کررہی ہے جس کے برے نتائج برآمد ہوں گے، اپوزیشن کے ارادے اور منصوبے ٹھیک نہیں لگتے ہیں۔
مسٹر نقوی نے کہا کہ کانگریس عوامی مینڈیٹ کا خیال نہیں رکھ رہی ہے، کانگریس کی نیت پر شک پیدا ہوتا ہے، ملک کی ہم آہنگی سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
مودی حکومت کو مضبوط قرار دیتےہوئے انہوں نے کہا کہ 10 برس پہلے دہلی میں مضبوط حکومت تھی جس کے لیے احکامات کئی مقامات سے آتے تھے۔ موجودہ حکومت نے دہلی میں دلالی بند کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے ایک بری روایت تھی جسے اکھاڑ پھینکا گیا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان مرزا۔ پنت سمجھوتے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 9 فیصد سے بڑھکر 20 فیصد ہوگئی ہے جبکہ پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد 24 فیصد سے کم ہوکر تین فیصد ہوگئی۔
بھارت کی اکثریت برادری رویہ سے جمہوریت پسند، روادار اور لبرل ہیں تبھی بھارتی دنیا کا سب سے مضبوط اور بڑا جمہوری ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’بھارت مسلمانوں کے لیے جنت ہے جبکہ پاکستان جہنم ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اقلیتی وزارت کی تشکیل 2006 میں منموہن حکومت نے کیا تھا اور پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کی فلاح وبہبود بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ لیکن کانگریس حکومتیں اس مقاصد کو مکمل نہیں کرپائی۔