جنرل راوت نے جمعہ کے روز نیشنل ڈیفنس کالج کی 'ہیرک جینتی' کے موقع پر 'ہندوستان کی قومی سلامتی ۔ آئندہ دہائی' کے عنوان پر دو روزہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر صورتحال کشیدہ ہے اور وہاں بھارتی فوجیوں کے سخت جواب کے سبب چین کی فوج کو غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کی جانب سے قبضہ اور حملہ آور سرگرمیوں کے سبب ایل اے سی پر صورتحال کشیدگی کا شکار ہے۔ جنرل نے کہا کہ 'ہندوستان کا واضح طور پر ماننا ہے کہ اسٹیٹس کو بحال کیا جانا چاہیے اور ہم ایل اے سی کو بدلنے کی کسی بھی حرکت کو منظور نہیں کریں گے۔'
سی ڈی ایس نے چین کے ساتھ تصادم کے جنگ کی شکل اختیار کرنے کا امکان کم بتایا لیکن یہ ضرور کہا کہ سرحد پر تصادم، قبضہ اور بلاوجہ فوجی سرگرمیوں سے بڑے تصادم کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل راوت کے ان بیانات کو دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان آٹھویں دور کی بات چیت کے تناظر میں کافی اہم مانا جا رہا ہے۔
سی ڈی ایس نے چین اور پاکستان کی جانب سے ملی بھگت پر مبنی خطرے کی بھی وارننگ دی۔ انہوں نے کہا کہ جوہری طاقت سے لیس ان ملکوں کے ساتھ مسلسل ٹکراؤ جاری ہے اور ان کے ساتھ پہلے جنگ بھی ہو چکی ہے۔ ان کی ملی بھگت سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور ٹکراؤ بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ملک طویل مدت سے اسلامی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا مرکز رہا ہے۔ گذشتہ تین دہائی سے پاکستان فوج اور آئی ایس آئی نے جموں و کشمیر میں پروکسی جنگ چھیڑ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہند بحر الکاہل خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمی، بحر ہند کے ممالک میں بڑی سرمایہ کاری اور جنوبی افریقہ، مصر، پاکستان اور آسیان ممالک کے ساتھ اس کی بڑھتی اسٹریٹجک شراکت داری سے چین کے مقصد کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت کے بطور ابھرنا چاہتا ہے۔
وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے جمعرات کو ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت امن کے تئیں پابند عہد ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے بھی مکمل تیار ہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ’بھارت امن دوست ملک ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اختلافات کو تنازعات میں نہیں بدلنے دینا چاہیے۔ ہم بات چیت کے ذریعے اختلافات کے پر امن حل کو اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن ایک طرفہ کاروائی اور حملے کی صورت میں وہ اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے تیار ہیں، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینا پڑے۔