محرم الحرام کی 10 تاریخ کو برصغیر کے مختلف ممالک میں تعزیہ داری کا رواج عام ہے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی اور لکھنؤ میں بھی تعزیہ داری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، تاہم گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی پولیس کی جانب سے تعزیہ نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دہلی سے تعلق رکھنے والے سرفراز گزشتہ چالیس برسوں سے اس قدیم روایت کا حصہ ہیں، وہ خود تعزیہ بنا کر محرم کا جلوس نکالتے ہیں لیکن رواں برس جلوس نکالنے کی اجازت نہیں ملنے سے وہ ناراض ہیں۔
سرفراز بتاتے ہیں کہ انہیں تعزیہ داری کا شوق سنہ 1980 میں ہوا جو اب تک جاری ہے حالانکہ ان کے آباؤ اجداد کا تعزیہ داری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سرفراز کی سرپرستی میں تعزیہ بنانے والے انسب احمد تقریباً بیس برسوں سے اپنے نام کا تعزیہ نکال رہے ہیں۔ وہ تین ماہ قبل سے ہی تعزیہ داری کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور روزانہ رات میں تعزیہ کی تیاری کا کام کرتے ہیں۔
انسب کے مطابق گذشتہ 28 جولائی کو انجمن تعزیہ داری کی جانب سے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر اور تینوں زون کے ڈپٹی کمشنر کو جلوس سے متعلق گائدلائنز جاری کرنے کی درخواست دی تھی لیکن 20 دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی جواب نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں:
دہلی: پتنگوں کا بازار بھی کورونا کی نظر
وہیں محمد واجد کا کہنا ہے کہ تمام تہوار کورونا کی نظر ہو گئے، ہم نے تمام رہنما ہدایات پر مکمل طور پر عمل کیا اب جب سب کچھ کھل چکا ہے تو انہیں محرم الحرام کو بھی روایت کے مطابق منانے کی اجازت ملنی چاہیے۔
واضح رہے کہ بھارت میں تعزیہ داری کی تاریخ تیرھویں صدی سے ملتی ہے، سب سے پہلے تیمور لنگ کے لیے ان کے وزراء نے تعزیہ داری کی شروعات کی تھی۔ بعد ازاں تعزیہ داری کی رسم پورے برصغیر میں رائج ہو گئی۔ تیمور کے بعد مغلوں نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔ اس کے بعد سے ہی یہ روایت جاری ہے۔