نئی دہلی: شمال مشرقی دہلی میں فروری ماہ میں ہوئے فسادات کی منصوبہ بندی کرنے اور اس کے تحت شازش رچنے کا مقدمہ اب جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کے خلاف بھی چلےگا۔
مقدمہ چلانے کو لیکر پولیس کی جانب سے عرضی کو دہلی حکومت نے منظوری دے دی ہے۔
واضح رہے کہ دہلی فسادات سے متعلق معاملہ مشرقی دہلی کی کڑکڑڈوما کورٹ میں چل رہا ہے۔
خیال رہے کہ 14 ستمبر 2020 کو دہلی فسادات معاملے میں جے این یو طلبا یونین کے سابق رہنما عمر خالد کو یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے قبل عمر خالد کو اسپیشل سیل نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔ اور تقریبا 11 گھنٹے تک پوچھ گچھ کے بعد انہیں گرفتار کرلیا۔ عمر خالد سے اسپیشل سیل اور کرائم برانچ کی اسپیشل ٹاسک فورس بھی پوچھ گچھ کرچکی ہے۔ ان کا موبائل بھی ضبط کیا گیا تھا۔ عمر خالد کا نام دہلی فسادات کی تمام چارج شیٹ میں شامل ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ 6 مارچ کو ایس آئی اروند کو ملی اطلاع پر کرائم برانچ میں فساد اور سازش کا ایک کیس درج کرایا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں اروند کمار نے کہا ہے کہ '23 تا 25 فروری کو ہوئے فسادات کے لیے پہلے سے ہی سازش رچی گئی تھی، اس میں عمر خالد، دانش اور ان کے دو ساتھی الگ الگ تنظیموں سے ملے ہوئے تھے۔ عمر خالد نے یہاں پر لوگوں کو بھڑکانے کے لیے دو الگ الگ جگہوں پر تقریریں کیں اور لوگوں سے اپیل کی کہ راستوں کو اس وقت مسدود کر دیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے یہ معاملہ عالمی سطح پر جائے گا کہ کس طریقے سے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے۔'اس معاملے کو درج کر لینے کے بعد جانچ کی ذمہ داری پولیس کمشنر ایس این شریواستو نے اسپیشل سیل کے سپرد کر دی تھی، سازش کو لے کر اسپیشل سیل کی ٹیم جانچ کر رہی تھی اور اس ایف آئی آر میں بعد میں یو اے پی اے ایکٹ لگایا گیا تھا۔
اس معاملے میں میران حیدر، صفورہ زرگر، دانش کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کرائم برانچ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ آٹھ جنوری کو طاہر حسین کی ملاقات عمر خالد اور خالد سیفی سے ہوئی تھی اور عمر خالد نے ان سے کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا، اس میں پی ایف آئی سے مدد طلب کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔