ETV Bharat / city

جے این یو کے 'مسلم طلبہ' دہلی پولیس کے راڈار پر - کرائم برانچ

شرجیل امام کے خلاف غداری اور ملک کے خلاف سازش کے معاملہ میں دہلی پولیس کے ذریعہ انکوائری کے دائرہ میں اب جے این یو کے مسلم طلبہ بھی آگئے ہیں۔

JNU's 'Muslim students' on Delhi Police radar
جے این یو کے 'مسلم طلبہ' دہلی پولیس کے ریڈار پر
author img

By

Published : May 21, 2020, 8:27 AM IST

Updated : May 21, 2020, 8:35 AM IST

ملک کے سب سے مشہور اور سیاسی وجوہات کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والا تعلیمی ادارہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم ایس جے (مسلم اسٹوڈنٹس آف جے این یو) کے متحرک ارکان میں خوف و سراسیمگی پھیل گئی ہے، کیوں کہ دہلی پولیس نے ان طلبہ کو نوٹس بھیجنا شروع کردیا ہے۔

کچھ روز قبل دہلی پولیس نے جے این یو کے طالب علم محمد کاشف کو نوٹس بھیجا اور اسے پوچھ تاچھ کے لئے بلایا۔ تفصیلات کے مطابق 17 مئی کی رات اسے نوٹس بھیجا گیا اور 18 مئی کو صبح کرائم برانچ میں حاضر ہونے کے لئے کہا گیا۔

حالانکہ ایسے وقت میں جب کہ ملک میں لاک ڈاؤن ہے اور جے این یو کو احتیاطی تدابیر کے طور پر جزوی سیل کردیا گیا ہے، کاشف کے لئے آنا فانا کرائم برانچ میں حاضری دینا مشکل ہوگیا تھا، اس کے باوجود اس نے انکوائری میں حصہ لیا۔

ایم ایس جے کے کئی ارکان نے بتایا کہ جامعہ کے بعد جے این یو کے ان طلبہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں فعال کردار نبھایا تھا۔

ایم ایس جے کی ایک خاتون رکن، جنہوں نے شرجیل امام کا معاملہ سامنے آنے کے بعد گروپ چھوڑ دیا تھا، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'جے این یو میں ایم ایس جے کی تشکیل شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے لئے ہوئی تھی۔ تب شاہین باغ اور جامعہ کا مظاہرہ شروع نہیں ہوا تھا، اس وقت عام لوگوں کو شہریت ترمیمی قانون کے مذہبی تعصب پر مبنی کردار کو سمجھانے کے لئے کئی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، طلبا پیمفلیٹ شائع کر کے محلہ محلہ گھومے تھے اور اس قانون کے تئیں ایک بڑی بیداری پھیلائی تھی'۔

خاتون رکن کے مطابق شرجیل امام اس گروپ کا حصہ تھا، پھر اسی گروپ کا نمائندہ بن کر اس نے شاہین باغ کے مظاہرہ میں حصہ لیا۔ جب یہ مظاہرے چل رہے تھے، تو اس وقت ایم ایس جے میں اختلاف ہوا اور شرجیل امام کو تنظیم سے باہر نکالنے کی تجویز منظور ہوئی۔ جسے بعد میں واپس لے لیا گیا، اس کے بعد شرجیل امام کو گرفتار کرلیا گیا۔

ایم ایس جے کے ایک دوسرے رکن جسے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اسے بھی انکوائری کے لئے بلایا جاسکتا ہے، کا کہنا ہے کہ 'میں ایم ایس جے گروپ کا ایک حصہ تھا، اور واٹس ایپ گروپ میں بھی تھا، جس میں شرجیل امام بھی تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس ان تمام لوگوں کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس گروپ کا حصہ تھے۔

اس رکن کا کہنا ہے کہ 'ہماری ساری تحریک جمہوری اور آئینی اقدار کے مطابق تھی، ہمیں کوئی خوف نہیں لیکن جس طرح پولیس یکطرفہ اور جانبدارانہ کاروائی کر رہی ہے، اس سے ہمیں اندیشہ ہے'۔

ملک کے سب سے مشہور اور سیاسی وجوہات کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والا تعلیمی ادارہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم ایس جے (مسلم اسٹوڈنٹس آف جے این یو) کے متحرک ارکان میں خوف و سراسیمگی پھیل گئی ہے، کیوں کہ دہلی پولیس نے ان طلبہ کو نوٹس بھیجنا شروع کردیا ہے۔

کچھ روز قبل دہلی پولیس نے جے این یو کے طالب علم محمد کاشف کو نوٹس بھیجا اور اسے پوچھ تاچھ کے لئے بلایا۔ تفصیلات کے مطابق 17 مئی کی رات اسے نوٹس بھیجا گیا اور 18 مئی کو صبح کرائم برانچ میں حاضر ہونے کے لئے کہا گیا۔

حالانکہ ایسے وقت میں جب کہ ملک میں لاک ڈاؤن ہے اور جے این یو کو احتیاطی تدابیر کے طور پر جزوی سیل کردیا گیا ہے، کاشف کے لئے آنا فانا کرائم برانچ میں حاضری دینا مشکل ہوگیا تھا، اس کے باوجود اس نے انکوائری میں حصہ لیا۔

ایم ایس جے کے کئی ارکان نے بتایا کہ جامعہ کے بعد جے این یو کے ان طلبہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں فعال کردار نبھایا تھا۔

ایم ایس جے کی ایک خاتون رکن، جنہوں نے شرجیل امام کا معاملہ سامنے آنے کے بعد گروپ چھوڑ دیا تھا، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'جے این یو میں ایم ایس جے کی تشکیل شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے لئے ہوئی تھی۔ تب شاہین باغ اور جامعہ کا مظاہرہ شروع نہیں ہوا تھا، اس وقت عام لوگوں کو شہریت ترمیمی قانون کے مذہبی تعصب پر مبنی کردار کو سمجھانے کے لئے کئی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، طلبا پیمفلیٹ شائع کر کے محلہ محلہ گھومے تھے اور اس قانون کے تئیں ایک بڑی بیداری پھیلائی تھی'۔

خاتون رکن کے مطابق شرجیل امام اس گروپ کا حصہ تھا، پھر اسی گروپ کا نمائندہ بن کر اس نے شاہین باغ کے مظاہرہ میں حصہ لیا۔ جب یہ مظاہرے چل رہے تھے، تو اس وقت ایم ایس جے میں اختلاف ہوا اور شرجیل امام کو تنظیم سے باہر نکالنے کی تجویز منظور ہوئی۔ جسے بعد میں واپس لے لیا گیا، اس کے بعد شرجیل امام کو گرفتار کرلیا گیا۔

ایم ایس جے کے ایک دوسرے رکن جسے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اسے بھی انکوائری کے لئے بلایا جاسکتا ہے، کا کہنا ہے کہ 'میں ایم ایس جے گروپ کا ایک حصہ تھا، اور واٹس ایپ گروپ میں بھی تھا، جس میں شرجیل امام بھی تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس ان تمام لوگوں کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس گروپ کا حصہ تھے۔

اس رکن کا کہنا ہے کہ 'ہماری ساری تحریک جمہوری اور آئینی اقدار کے مطابق تھی، ہمیں کوئی خوف نہیں لیکن جس طرح پولیس یکطرفہ اور جانبدارانہ کاروائی کر رہی ہے، اس سے ہمیں اندیشہ ہے'۔

Last Updated : May 21, 2020, 8:35 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.