میٹنگ میں نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے پر متفقہ رائے بنی، مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون پہلے نظر ثانی کی عرضی کے حق میں نہیں تھے، مگر مسلمانوں کی بے چینی کو دیکھ کر انہوں نے گیند جمعیت کے پالے میں ڈال دی اور کہا کہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے۔
جس کے بعد مزید منصوبہ بندی کے لئے جمعیت نے وکلاء کا ایک پینل تشکیل دے دیا ہے۔ جو فیصلہ کا مزید مطالعہ کرے گا اور فیصلہ کی خامیوں کی نشاندہی کرے گا۔ اس کا مقصد مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگ میں عرضی داخل کرنے کے موقف کو مضبوطی سے پیش کرنا ہے۔
جمعیت کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق "مجلس عاملہ کی نظر میں بابری مسجد قانون اور عدل و انصاف کی نظر میں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے۔
اس لئے کہ کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل پرمسجد سے دستبردار ہو جائے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کے خلاف ایک پینل تشکیل ہو جو وکلاءاور ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ ری ویو پٹیشن داخل کی جائے یا نہیں۔ چنانچہ مولانا سید ارشد مدنی ،مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی، مولانا سید اسجد مدنی، فضل الرحمٰن قاسمی اور ایڈوکیٹ اعجاز مقبول پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا گیا۔
پینل مستقل وکلاءاور ماہرین قانون کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہا ہے ۔مجلس عاملہ نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے یا کسی مندر کی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے، جیسا کہ خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے۔
اسی بنیاد پرجمعیة علماءہند کا روز اول سے بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں یہ موقف رہا ہے کہ ثبوت و شواہد اور قانون کی بنیاد پر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا اسے ہم تسلیم کریں گے۔ خود سپریم کورٹ نے متعدد بار کہا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ صرف ملکیت کا ہے نہ کہ آستھا کا۔ اسی لئے جمعیة علماءہند نے ملک کے ممتاز وکلاءکی خدمات حاصل کیں ،ثبوت و شواہد اکٹھا کئے اور قدیم دستاویزات کے ترجمے کروا کر عدالت میں پیش کئے اور پوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کا دعویٰ پیش کیا اور ہم اسی بنیاد پر پرامید تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا مگر جو فیصلہ آیا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ ان تمام حقائق اور شواہد کو نظر انداز کرکے آستھا کی بنیاد پر دیا گیا ہے، جو سمجھ سے بالا تر ہے۔
صدر جمعیة علماءہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا اور یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیوں کہ پانچ ججوں کی بینچ نے ایک طرف تو اپنے فیصلے میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنانے کا انکار کیا ،بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے، پھر اسے توڑنے کو غلط ٹھہرا یا ہے اور جگہ انہیں لوگوں کو دے دی جنہوں نے مسجد میں مورتی رکھی اور پھر مسجد کو شہید کر دیا جس کی ہرگز امید نہ تھی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے آزاد ہونے کے بعد جب دستور بنا اس وقت بھی وہاں مسجد تھی اور لوگ نماز بھی پڑھتے تھے۔انہوں نے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف نہیں بلکہ تصفیہ ہے۔ اس فیصلہ نے بھارت کے بڑے بڑے ہندو مسلم ماہرین قانون کو محوحیرت کر دیا ہے۔صحافیوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کہ بابری مسجد کے عوض میں سپریم کورٹ نے 5 ایکڑ زمین مسلم فریق کو دی ہے کیا اس کو جمعیة علماءہند قبول کرے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ بھارتی مسلمان زمین کا محتاج نہیں ہے، ہمیں اسے قبول نہیں کرنا چاہئے اور سپریم کورٹ نے یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی ہے، وقف بورڈ کو بھی زمین قبول نہیں کرنی چاہئے۔
ایک اور سوال کہ کیا جمعیة علماءہند بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عالمی عدالت میں چیلنج کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمارا ہے اور ملک بھی ہمارا ہے اس لئے ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور عالمی عدالت میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو بھی کارروائی کی جائے گی وہ ملک کے اندر قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے گی۔
میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں پر ہمیشہ سے یہ کلنک اور داغ لگا ہوا تھا کہ بابر نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرائی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ میں یہ تبصرہ کہ’ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی‘ یہ کلنک اور داغ بھی مسلمانوں کی پیشانی سے دھل گیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ثبوت و شواہد کا اپنے فیصلے میں ذکر کیا ہے لیکن فیصلہ اس کے برخلاف دیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ مسجد 1528 میں بابر کے زمانے میں بنی تھی اور 1934 میں فرقہ وارانہ فساد میں کچھ حصے کو نقصان پہنچا تھا، جس کو اس وقت کی گورنمنٹ نے ہندوؤں پر ٹیکس لگا کر مرمت کروائی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ 22 اور23 دسمبر 1949کی درمیانی رات میں کچھ لوگوں نے دیوار پھاند کر رام للاکی مورتی کو مسجد کے اندر درمیانی گنبد کے نیچے رکھ دیا تھا۔6دسمبر 1992کوسپریم کورٹ کو یوپی گورنمنٹ نے بابری مسجد کے حفاظت کی ذمہ داری کا حلف نامہ دیا تھاسپریم کورٹ کے آرڈر کے خلاف بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو شہید کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ انہدامی عمل غیر قانونی تھا،کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 1528 سے لیکر 22دسمبر 1949 تک مسلمانوں نے وہاں نماز پڑھی۔کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد آثار قدیمہ نے جو کھدائی کی تھی اور بابری مسجد کے نیچے سے جو ملبہ ملا تھا وہ غیر اسلامی تھا لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مند ر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ کی مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے مسجد کے وجود کو تسلیم کیا،اس کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا، اس میں نماز پڑھنے کو تسلیم کیا،کسی مندر کو گراکر مسجد بنانے کا انکار کیا ہے،لیکن ان تمام ٹھوس ثبوت و شواہد کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ نے پوری زمین رام للا کو دے دی ۔
اس لئے مذکورہ حقائق کے بعد بھی یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔مزید برآںاگر مسجد کی جگہ مسلمانوں کی ملکیت ہی نہیں تھی تو 5 /ایکڑ زمین کا دیا جانا کس چیز کا معاوضہ ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ خود کسی نہ کسی درجے میں ملکیت بھی تسلیم کرر ہا ہے ۔خیال رہے کہ 1949 میں جس وقت جبرا مورتی رکھی گئی تھی اس وقت دفعہ 145کے تحت کورٹ نے اس پراپرٹی کو اٹیچ کرکے ریسیور کے ماتحت کردیاتھا۔مولانا مدنی نے سوال اٹھا تے ہوا کہا کہ اگر 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید نہیں کی گئی ہوتی تو آج کیا سپریم کورٹ یہ ہدایت دیتا کہ مسجد کو شہید کردیا جائے اور زمین رام للا کودے دی جائے۔
جہاں تک 5 ایکڑ زمین کی بات ہے جمعیة علما ءہند کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے اور وہ وقف علی اللہ ہوتی ہے اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے ۔اس لئے کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی متباد ل پر مسجد سے دستبردار ہوجائے۔لہذا زمین لینے کا مطلب ہے کہ ہم مسجد سے دستبردار ہورہے ہیں جس کا ہمیں اختیار ہی نہیں ہے۔اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا تو جب بابری مسجد کی شہادت قانون کی خلاف ورزی تھی تو اس جرم میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی روزانہ کی سماعت کی بنیاد پرجلد ازجلد فیصلہ ہونا چاہیے۔
اجلاس مجلس عاملہ میں مرحومین خاص کرمفتی منظور احمد مظاہری قاضیٰ شہر کانپور کے انتقال پرملال پر رنج وغم کااظہاراور ان کے لئے دعاءمغفرت کی گئی ، اس میں ایک تجویز منظورکی گئی اجلاس کی کارروائی صدرمحترم مدظلہ کی دعاءپر اختتام پزیرہوئی ۔اجلاس میں صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی ، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی ،مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی، مولانا فضل الرحمن قاسمی ،جناب گلزار احمد اعظمی ، مولاناحلیم اللہ قاسمی علاوہ ہندوستان کے بڑے وکلاءاور دانشور ان بھی شریک ہوئے۔