آغا خان فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ کے ڈائریکٹر جے سی بی مشین سے دہلی وقف بورڈ کے پلاٹ کی چاروں طرف سے کھدائی کرا رہے تھے، جس کی اطلاع موصول ہوتے ہی موقع پر بورڈ کے لیگل اسسٹنٹ حسن جمال اور ان کی ٹیم پہنچ کر کام کو رکوا دیا اور وقف کی زمین پر اس طرح غیر قانونی کھدائی اور قبضے کی کوشش پر اعتراض جتاتے ہوئے پولیس کو بھی موقع پر بلایا.
پولیس نے موقع پر پہنچ کر کھدائی کرنے والے سے ملکیت کے کاغذات طلب کیے جو وہ نہ دکھا سکے تو پولیس نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک آپ زمین کی ملکیت کے کاغذ نہیں دکھائیں گے اس وقت تک زمین پر کسی بھی طرح کی کاروائی نہ کریں.
وقف بورڈ کے افسران کی جانب سے اس سلسلے میں پولیس تھانے میں زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے متعلقہ لوگوں کے خلاف تحریر بھی دی گئی، جسے پولیس نے وصول کر لیا، جبکہ اس سے قبل جب تحریر دی گئی تھی تو پولیس نے شکایت لینے سے بھی انکار کر دیا تھا.
یہ زمین دہلی حکومت کے گزٹ میں خسرہ نمبر 533 کو 3مارچ 1994 کے مطابق نوٹیفائید وقف پراپرٹی ہے، جو سالوں سے خالی پڑی ہوئی ہے، اس کا کچھ حصہ نیوہورائزن پبلک اسکول کے احاطے میں آ گیا ہے جبکہ تقریبا 16 سو گز زمین خالی پڑی ہے جس کی قیمت 560 کروڑ بتائی جا رہی ہے.
وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر حافظ محفوظ کی قیادت میں جب ایک ٹیم موقع پر پہنچی تو اس وقت تک آغا خان فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ ڈائریکٹر اور اس کے ٹھیکیدار تقریبا آدھی باؤنڈری کھدوا چکے تھے.