آج عمر خالد کے وکیل نے دہلی کی ایک عدالت کو بتایا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شہر میں ہونے والا احتجاج جمہوری نوعیت کا احتجاج تھا، جبکہ ان کے خلاف دائر کی گئی چارج شیٹ فرقہ وارانہ تھی۔ سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے یہ تبصرہ شمال مشرقی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں اور مخالفیں کے درمیان ہوئے جھڑپ کے بعد قومی دارالحکومت میں 26 فروری 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد سے متعلق کیس میں ضمانتی عرضی کی سماعت کے دوران کیا۔
واضح رہے کہ دہلی کے فرقہ ورانہ تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں 40 مسلمان تھے۔
عمر خالد پر پولیس کا الزام ہے کہ انہوں نے دو احتجاجی مقامات پر اشتعال انگیز تقاریر کیں اور دہلی کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران سڑکوں پر مظاہرے کریں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ خالد کا مقصد "عالمی سطح پر پروپیگنڈا" پھیلانا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔'
منگل کی سماعت میں، پیس نے دعویٰ کیاکہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج سیکولر تھا اور اس میں مختلف شعبوں کی کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ وکیل نے ایک گواہ کا بیان پڑھ کر سنایا جس نے الزام لگایا تھا کہ خالد نے خواتین کو احتجاج میں شرکت کے لیے پیسے دیے اور وہ جامعہ رابطہ کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
پیس نے سوال کیا کہ اگر گواہ میٹنگ میں موجود تھا تو وہ کیس کا ملزم کیوں نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ چارج شیٹ میں، کسی بھی گواہ نے یہ نہیں کہا ہے کہ خالد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں موجود تھا، ان جگہوں میں سے ایک جہاں پولیس کا دعویٰ ہے کہ خالد نے ایک تقریر کی تھی جس سے تشدد ہوا تھا۔
- مزید پڑھیں: شرجیل امام کی ضمانتی عرضی پر فیصلہ محفوظ
- دہلی فساد: فیس بک 18 نومبر کو دہلی حکومت کے سامنے پیش ہوگا
سماعت 8 نومبر کو بھی جاری رہے گی
12 اکتوبر کو کیس کی پہلے کی سماعت میں، خالد نے پوچھا تھا کہ کیا مسلم طلباء کا واٹس ایپ گروپ بنانا دہشت گردی کے مترادف ہے، انہوں نے مزید کہاکہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کوئی گواہ نہیں ہے کہ اس نے واٹس ایپ گروپ بنایا تھا۔ پیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ چارج شیٹ میں بیان کردہ گواہوں کے بیانات تیار ہیں۔