ایک برس قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اندر گھس کر دہلی پولیس نے جس طرح سے طلبہ کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا اسی ظلم و ستم کے غم میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی طلبہ نے بٹلہ ہاؤس کے قریب کینڈل روشن کر کے ایک جلوس نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔
اس تعلق سے اطلاع موصول ہوتے ہی پولیس نے راستے میں ہی طلبہ کو روک کر ہراست میں لے لیا۔ اس دوران عمرخالد کے والد سید قاسم الیاس نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ سے بتایا کہ گرفتار کارکنوں میں عمر خالد کی والدہ اور چھوٹی بہن بھی شامل ہیں۔ سید قاسم الیاس نے بتایا کہ خواتین اور طلبہ کا ایک چھوٹا سا گروپ بٹلہ ہاؤس میں کینڈل مارچ نکال رہے تھے ، جسے پولیس نے راستے میں ہی روک دیا اسی دوران میری بیٹی اور اہلیہ کو بھی پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا۔
انہوں نے بتایا کہ' میں نے اب تک تین تھانوں کا دورہ کیا، لیکن ان سب نے انہیں یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ ان کی بیوی اور بیٹی کے بارے میں نہیں جانتے ہیں، سید قاسم الیاس نے بتایا کہ' پہلے خبر ملی کہ وہ لاجپت نگر پولیس اسٹیشن میں ہیں ، لہذا میں وہاں گیا وہ لوگ وہاں بھی نہیں ملے۔ تب انہوں نے مجھے نیو فرینڈس کالونی اسٹیشن جانے کو کہا۔ لیکن وہاں بھی نہیں تھے۔کچھ گھنٹوں بعد الیاس کے پاس فون آیا، جس نے انہیں بتایا کہ انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ "وہ جامعہ نگر اسٹیشن پر ہیں۔
مزید پڑھیں: جامعہ تشدد کے ایک برس مکمل، طلبہ نے نکالا کینڈل مارچ
غور طلب ہے کہ جامعہ یونیورسٹی کے ارد گرد پچھلے کچھ دنوں سے پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے 15 دسمبر کی صبح سے ہی پولیس کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔