تیس ہزاری کورٹ نے کہا کہ دیپ سدھو کی گرفتاری پہلے کیس میں پائے جانے والے ضمانت کے حکم کو غیر فعال کرنے کی کوشش تھی، 24 اپریل کو چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ گجیندرناگر نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔
سماعت کے دوران دیپ سدھو کی جانب سے ایڈوکیٹ ابھیشیک گپتا نے کہا تھا کہ ایف آئی آر میں عمر قید یا پھانسی دینے کا کوئی شق نہیں ہے۔ اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 27 اسی وقت استعمال ہوگی جب کسی کی موت ہوگی، لیکن اس معاملہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، انہوں نے پرہلاد سنگھ بھٹی کے فیصلے کے پیش نظر اس سلسلے میں فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
وکیل ابھیشیک گپتا نے کہا تھا کہ پہلے درج کی گئی ایف آئی آر اور اس ایف آئی آر میں بھی ایک ہی نوعیت کے الزامات ہیں، اگر پہلی ایف آئی آر میں ضمانت مل جاتی ہے تو اس معاملے میں بھی ضمانت ملنی چاہئے، دیپ سدھو کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔
گپتا نے کہا تھا کہ اس معاملے میں پولیس کا جواب وہی ہے جو پولیس نے سیشن کورٹ میں ضمانت کی درخواست میں دائر کیا تھا، پولیس کو یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ اس ایف آئی آر کو کیوں نہیں منسوخ کیا جانا چاہئے۔
سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ ایف آئی آر اور پہلی ایف آئی آر ایک جیسی ہیں، دہلی پولیس کے وکیل نے کہا تھا کہ دیپ سدھو کے وکیل نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ایف آئی آر کو ختم کرنے کے لیے ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس معاملے میں ملزم کا فعال کردار ہے، کال کی تفصیلات ریکارڈ اور ویڈیو سے واضح ہے کہ اس واقعے میں اس کا کردار تھا۔ تب عدالت نے کہا کہ آپ کو یہ بتانا چاہئے کہ دونوں ایف آئی آر مختلف کیسے ہیں۔
تب دہلی پولیس نے کہا تھا کہ اگر دونوں ہی جرم ایک ہی جگہ پر ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دو ایف آئی آر درج نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر ضمانت منظور ہو گئی تو ملزم ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے گا۔ وہ دوسرے ملزم جوگراج سنگھ کی مدد کرسکتا ہے ، جو اس معاملے میں مطلوب ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 22 اپریل کو عدالت نے دہلی پولیس کو دیپ سدھو کی آواز کے نمونے لینے کی اجازت دی تھی۔ گذشتہ 19 اپریل کو عدالت نے دیپ سدھو کے پولیس تحویل میں بھیجے جانے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے 14 دن کے لیے عدالتی تحویل میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
واضح رہے کہ دہلی پولیس کے ذریعہ درج کی گئی ایف آئی آر میں عدالت نے دیپ سدھو کو 17 اپریل کو ضمانت دے دی تھی اور جیسے ہی اسے ضمانت پر رہا کیا گیا تو پولیس نے دیپ سدھو کو 17 اپریل کو آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا کے ذریعہ لال قلعے کو پہنچنے والے نقصان کے سلسلے میں گرفتار کیا۔ دیپ سدھو کو گذشتہ 9 فروری کو ہریانہ کے کرنال سے دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے گرفتار کیا تھا۔