عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے ) سے منسلک عرضیوں کی سماعت اس وقت تک نہیں کرے گی، جب تک اس سلسلے میں ملک بھر جاری تشدد رک نہیں جاتا۔ چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے نے یہ تبصرہ اس وقت کیا ،جب وکیل پنیت کمار ڈھنڈا نے سی اے اے کو ’آئینی‘ قرار دینے کے تعلق سے اپنی عرضی کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔
جسٹس بوبڈے، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے عرضی میں کئے گئے مطالبے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے منظور قانون اپنے آپ میں آئینی ہی مانا جاتا ہے، اس کو آئینی قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔البتہ کورٹ کا کام اس کی آئینی جوازیت کو پرکھنا ہے۔جسٹس بوبڈے نے مسٹر ڈھنڈا سے کہا ’’آپ ایک وقت قانون کے طالب علم رہے ہیں، آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے۔
پہلی بار میں نے اس طرح کی درخواست سن رہا ہوں ۔ عدالت عظمیٰ کو قانون کی آئینی جوازیت پركھني ہوتی ہے، نہ کہ اسے آئینی قرار دینا ہوتا ہے‘‘۔ انهوں نے کہا کہ ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور ملک بھر میں امن وامان قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ اس طرح کی عرضیوں سے مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتا۔
مسٹر ڈھنڈا نے سي اے اے کی حمایت میں عرضی دائر کی ہے اور ان سیاسی جماعتوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو ہدایات دینے کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے بدامنی پھیلانے میں کردار ادا کیا ہے۔
عرضی گزار نے سی اے کو آئینی قرار دینے کا بھی عدالت سے مطالبہ کیا ہے۔ واضح ر ہے کہ سی اے اے کی آئینی جوازیت کو چیلنج کرنے والی 60 عرضیاں عدالت میں دائر ہوئی ہیں جن پر گزشتہ برس 18 دسمبر کو عدالت نے مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا ۔ اس ماہ کے تیسرے ہفتے میں ان عرضیوں پر سماعت ہونی ہے۔