عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے اشوک اپادھیائے نے کہا کہ وہ گزشتہ 15 برسوں سے یمنا ندی کے کنارے پودے لگا رہے ہیں اور اب تک انہوں نے دو ہزار سے زیادہ پودے لگا چکے ہیں۔
اشوک اپادھیائے نے کہا کہ صرف پودے لگانے سے ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کی دیکھ بھال کرنا زیادہ ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک وہ دہلی کے آئی ٹی او چھٹ گھاٹ، نگمبھودھ گھاٹ اور متھرا کے متعدد گھاٹوں کے کنارے پودے لگائے ہیں۔ پودے لگانے کے ساتھ ان کی تنظیم کے لوگ ان پودوں کی دیکھ بھال ہفتے میں ایک بار کرتے ہیں اور انہیں باقاعدگی سے پانی بھی دیتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اخبار تقسیم کرنے والے اشوک اپادھیائے پہلے یمنا کے کنارے پلاسٹک چننے کا کام کرتے تھے تاکہ یمنا صاف ہو سکے۔ پودے لگانے کے لیے وہ کسی سے مالی تعاون بھی نہیں لیتے ہیں بلکہ اگر کوئی مدد کرنا چاہتا ہے تو اس سے پودوں کی حافظت کے لیے جال لانے کو کہتے ہیں، جبکہ متعدد بڑے عہدیدار بھی اس کام میں تعاون کرتے رہتے ہیں۔
یمنا ندی کے آلودہ ہونے کے سوال پر اشوک اپادھیائے نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اب مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ یمنا میں فیکٹریوں کا پانی گرنا بند ہو گیا ہے لیکن نالیوں کا پانی اب بھی یمنا میں گرتا ہے۔جس کی وجہ سے یمنا گندی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم نے متھرا میں ایک تجربہ کیا تھا جو کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔یمنا ندی میں گرنے والے تمام نالیوں کے پانی یمنا کے کنارے کی طرف موڑ دیا گیا تھا جس سے یمنا کے کنارے لگائے گئے پودوں اور درختوں کو سیراب کیا جانے لگا اور اس تجربہ سے گٹر کے پانی کو یمنا میں گرنے سے بھی بچایا گیا۔
اشوک اپادھیائے کے عظیم کام میں حصہ لینے والے شکر پور کے سابق کارپوریشن کونسلر سشیل اپادھیائے نے کہا کہ کوئی بھی پودا لگا سکتا ہے لیکن اس کی دیکھ بھال کرنا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔جس طرح انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ان پودوں کو بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب یہ پودے بڑھتے اور درخت بن جاتے ہیں تو ہم انسانوں سے کچھ نہیں لیتے ہیں لیکن صرف ہمیں یہ خالص آکسیجن دیتے ہیں۔ لہذا ان پودوں کو بچانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے۔