دنیائے صحافت میں نام روشن کرکے اس دنیا سے رخصت ہونے والے مرحوم سینئر صحافی عبدالقادر شمس کی وفات پر اتوار کے روز جماعت اسلامی ہند کے کانفرنس ہال ابو الفضل، نئی دہلی میں ادارہ ادب اسلامی، دہلی باشتراک فورم فور انٹلیکچول ڈسکورس کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں پروفیسر حسن رضا، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر پرویز شہر یار، سینئر صحافی سراج نقوی، منظر امام، ڈاکٹر محمد اجمل، صحافی عابد انور، ڈاکٹر زین شمسی سمیت دیگر صحافی، سماجی اور ملی شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر ڈاکٹر نعمان قیصر اور محمد اسلام خان کی ترتیب کردہ کتاب ’وہ جو شمس تھا سرِ آسماں‘ اور احسان قاسمی کے ذریعہ مرتب ’سیمانچل کے افسانہ نگار‘ کتابوں کا رسم اجرا کیا گیا۔
اس موقع پر مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی جودھ پور کےسابق وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے صدارتی خطاب میں کہا کہ مرحوم شمس عبدالقادر جیسے صحافی کا دوبارہ ملنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبدالقادر شمس ریاست بہار میں پیدا ہوئے، دارالعلوم دیوبنداور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے عظیم اور تاریخ ساز اداروں میں تعلیم حاصل کر کےصحافت شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صحافی کے ساتھ ساتھ ایک ملی آدمی تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے علاقے میں وہ کام کیے جو سیاست دانو ں کو کرنے چاہیےتھے۔
انہوں نے کہا کہ عبدالقادرشمس رہتے تو دہلی میں تھے لیکن وہ خواب سیمانچل کے دیکھتے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر نعمان قیصر اور محمد اسلام خان کو کتاب مرتب کرنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی عبدالقادر شمس تھے۔
اس موقع پر معروف ادیب حقانی القاسمی نے عبدالقادر شمس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوٹے شہر کی بڑی شخصیت تھی۔ انہوں نے ’دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا، سینے میں ساگ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا۔‘ جیسے اشعار سے خراج عقیدت پیش کیا اپنے لگاؤ کا اظہار کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر پرویز شہر یار نے کہا کہ عبدالقادر شمس جید عالم کے ساتھ جیدصحافی تھے، انہوں نے اپنے علاقے کے لیے جو ملی کام کیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
اس موقع پر سینئر صحافی سراج نقوی نے عبدالقادر شمس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عبدالقادر سے اچھے تعلقات تھے جب بھی کوئی چھوٹی بڑی باتیں ہوتی تھیں تو وہ ان سے ضرور پوچھتے تھے ۔
خان محمد رضوان نے عبدالقادر شمس سے اپنے دیرینہ تعلقات کے بارے میں بتایا کہ میں ان کو ایک ایماندار صحافی کے نام سے جانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ اسلام کے بارے میں بات کرتے تھے ان کے اندر اسلام کے تئیں کافی سوچ تھی۔
اس موقع پر ان کے پھوپھی زاد بھائی اور روز نامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ دہلی انوارالحق قاسمی نے کہا کہ مولانا عبدالقادر شمس بچپن سے ہی کافی فعال اور متحرک رہے ہیں۔ وہ ناسازگار حالات میں جینے کا ہنر رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں دینی ادارہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔
پروگرام کے ناظم منظر امام نے کہا کہ جن دو کتابوں کی رونمائی ہوئی وہ دونوں ہی کتابیں کافی معتبر ہیں۔ خاص کرکے ’وہ شمس تھا سر آسماں‘ عبدالقادر شمس کی حیات وخدمات پر محیط ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوگا کہ مولانا عبدالقادر شمس نے کس محنت اور لگن کے ساتھ صحافتی اور ملی خدمات کو انجام دیا۔
اس موقع پر ’وہ جو شمس تھا سرِ آسماں‘ کی کتاب مرتب کرنے والے ڈاکٹر نعمان قیصر نے کہا کہ شمس عبدالقادر کی شخصیت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی صحافتی، سماجی اور ملی خدمات بہت ہی روشن ہے۔ ان کی ملنساری، انکساری ہمیشہ یاد رہے گی۔
اس موقع پر خطاب کے دوران محمد اسلام خاں اپنے تاثرات پیش کرتے کرتے آبدیدہ ہوگئے اور مائک چھوڑ کر چلے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی حکومت نے مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔ کلیم الحفیظ
سینئر صحافی جمشید عادل علیگ نے عبدالقادر شمس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیمانچل وہ خطہ ہے جہاں سے کئی بڑے بڑے صحافی پیدا ہوئے، ان میں عبدالقادر شمس بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسی خطے سے معروف ادیب حقانی القاسمی بھی آتے ہیں۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر جسیم الدین وغیرہ نے خطاب کیا۔ پروگرام صبح ساڑھے 10بجے شروع ہوا جو دوپہر دو بجے اختتام کو پہنچا۔