زرعی اصلاحات کے تینوں قانون سے ملک کی بڑی آبادی کی زندگی متاثر ہوگی کیونکہ بھارت کی نصف سے زائد آبادی کی روزی۔روٹی، کھیتی۔باڑی پر منحصر ہے۔ اس کے باوجود بلوں کو کبھی بھی کسانوں کے سامنے نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس تعلق سے ان کے لیڈران سے رابطہ کیا گیا۔
یہ مودی حکومت کی کورونا کو اپنے تاناشاہی اقدامات کے نفاذ کے لیے حیلہ بنانے کی ایک اور مثال ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کے کسانوں کو حکومت کی طرف سے مزید تعاون اور اپنی روزی روٹی کے تحفظ کی سخت ضرورت ہے، ان قوانین کے سبب ان سے وہ معمولی تعاون بھی چھن جانے کا خطرہ ہے جو انہیں اب تک حاصل تھا۔ اے پی ایم سی اور حکومت کی طرف سے دی گئی کم سے کم تعاون کی قیمت(ایم ایس پی) کے خاتمے سے، اب کسانوں کو اپنی پیداوار کی مناسب قیمت حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے کاروباریوں کے ساتھ خود ہی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ یہ طے ہے کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھ جائے گی۔ اس سے صرف کاروپوریٹ اور بڑے کاروباریوں کا نفع ہوگا۔
![Popular front of india](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/dl-nd-03-pficondemnfarmersbill-dry-7200880_29092020182021_2909f_1601383821_851.jpg)
پاپولر فرنٹ مرکزی حکومت سے ان قوانین کو واپس لینے کی اپیل کرتی ہے، جن کی وجہ سے زراعت اور کسانوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
ملک بھر کے کسانوں، اپوزیشن پارٹیوں حتیٰ کہ این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں کی شدید مخالفت کے باوجود جس جلدبازی اور فریب کے ساتھ راجیہ سبھا میں زرعی بل پاس کیا گیا وہ بھارت کی جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ حکمراں اتحاد کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے۔ حزب اختلاف نے بجا طور پر ووٹوں کی تقسیم یا دونوں بلوں کو سیلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا لیکن ڈپٹی چیئرپرسن نے ووٹنگ کرانے کا فیصلہ کیا۔ راجیہ سبھا کی لائیو کاروائیوں کے آڈیو ٹیلی کاسٹ کی آواز بند کر دی گئی اور ارکان پارلیمنٹ جو کچھ کہہ رہے تھے اس سے ناظرین کو محروم کر دیا گیا۔
ان تمام باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو جمہوری اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہے اور یہ کہ مودی حکومت اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کیسے کیسے پرفریب طریقے اپنا رہی ہے۔