دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی خطے میں دو برس قبل ہوئے فرقہ وارانہ فساداتSectarian riots کی تلخ یادیں آج بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔
سمیر نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ دہلی فسادات کے دوران اسے گولی لگی تھی جس کی وجہ سے سمیر کا زیر ناف جسم حرکت کرنے سے قاصر ہے۔
یو اے پی اے کے الزام میں گرفتار خالد سیفی کی اہلیہ نے بتایا کہ جس پولیس نے خالد سیفی کو گرفتار کیا ہے وہ آج خود سوالات کے گھیرے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خالد کو 2 برس مکمل ہوچکے ہیں انہیں 28 فروری 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا دو برس گزر جانے کے باوجود پولیس کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عشرت جہاں کی دوست نے میڈیا کو بتایا کہ کس طرح سے عشرت جہاں کو جیل میں پریشان کیا جا رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ ان دو سالوں میں عشرت جہاں پر تین بار حملہ ہوا ہے انہیں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اذیت پہنچائی جا رہی ہے۔ انہیں محض 10 دن کے لیے جیل سے رہا کیا گیا تھا اور ان کی ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں سوکھی تھی کہ انہیں واپس جیل میں جانا بھیج دیا۔
اس موقع پر دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ پولیس اپنا کام صحیح سے نہیں کر رہی ہے جب میں دہلی اقلیتی کمیشن کا چیئرمین تھا تب میں نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دہلی فسادات پر دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو بھی دہلی سرکار نے ماننے سے انکار کر دیا حالانکہ دہلی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو عدالتی کارروائی میں استعمال کریں۔