بہار کے دربھنگہ ضلع کے مشہور و معروف ادیب ڈاکٹر مشتاق احمد نے ای ٹی وی بھارت سے اپنی زندگی اور اردو کے شوق اور اردو معاشرے میں اردو کے فروغ سے وابستہ موضوع پر بے باکی سے بات کی۔ مشتاق احمد سی ایم آرٹ کالج دربھنگہ کے پرنسپل ہیں۔ انہیں بہار اردو مشاورتی کمیٹی کا وائس چیئرمین بھی بنایا تھا۔ اس عہدے پر وہ تین سال رہے اور اردو زبان کی تعلیم کے لئے حکومت کو مشورہ دیا۔
ڈاکٹر مشتاق احمد نے اردو معاشرے اور اردو کے فروغ کے متعلق کہا کہ اردو معاشرے میں اردو کو فروغ دینے کی ضروت ہے کیونکہ اس زبان کے بغیر اسلامی تعلیم ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اگر اسکول میں بچے اردو نہیں پڑھتے تو اپنے گھروں میں اردو تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ اردو خالص بھارتی زبان ہے۔ یہ زبان یہاں کی تہذیب، تمدن اور ثقافت کی روح کی حشیت رکھتی ہے۔ اردو کو مسلمان یا اسلام مذہب سے جوڑنا لا علمی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی ترقی کیلئے پریم چند، کرشن چندر، جگن ناتھ آزاد، فراق گورکھ پوری، پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے قلمکار نے اپنا خوں پسینہ بہایا ہے۔
آج اردو آبادی کو اکثریت طبقے کے ساتھ مل کر جو غلط فہمی پیدا کی گئے ہے اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو معاشرے میں تعلیمی پسماندگی کو بھی دور کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے دانشور طبقے کو آگے آنا چاہئے۔ خصوصی طور پر مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کیلئے مفت کوچنگ سینٹر سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ وہ اپنے کالج میں مفت کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں اور اس سے اب تک سینکڑوں طلبہ کامیاب ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی نگاہ میں ان کی سبھی تخلیق بہتر ہے لیکن ان کی تحقیقی کتاب اقبالیات کی وضاحتی کتابیات کو کافی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے ہندی کے شاعر اور ناول نگار بابا ناگ ارجن کی کتاب بلچانما کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا جو کتاب بہت مقبول ہوئی۔ وہ کئی اردو اخباروں میں کالم بھی لکھتے ہیں ان کے کالموں کی دو کتاب جہان فکر اور چراغ فکر شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کے عرصے میں ایک نظموں کا مجموعہ مکمل کیا ہے جس کا عنوان 'آئینہ حیران' کے نام سے شائع ہونے والا ہے۔