ETV Bharat / city

دادی کی راہ پر جیوتی رادتیہ سندھیا - راجیہ سبھا کی رکنیت اور مرکز میں وزارتی عہدہ دیا جاسکتا ہے

مدھیہ پردیش کی سیاست کے 'مہاراج' جیوتی رادتیہ سندھیا، کانگریس پارٹی کے ساتھ بغاوت کے موڈ میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جیوتی رادتیہ سندھیا اپنی نانی وجیہ راجے سندھیا کے 'خواب' کو پورا کریں گے اور بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے۔

Jyotiraditya Scindia on her grandmother's way
دادی کی راہ پر جیوترادتیہ سندھیا
author img

By

Published : Mar 10, 2020, 1:18 PM IST

بتایا جارہا ہے کہ جیوتی رادتیہ نے وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی ہے اور آج وہ ایک بڑا اعلان کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کے ذریعہ جیوتی رادتیہ کو راجیہ سبھا کی رکنیت اور مرکز میں وزارتی عہدہ دیا جاسکتا ہے۔

گوالیار پر حکمرانی کرنے والی 'راجماتا وجیہ راجے سندھیا' نے اپنی سیاست کا آغاز 1957 میں کانگریس سے کیا تھا۔ وہ گنا لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیمان کے طور پر منتخب ہوئی تھیں۔

وہ صرف 10 برسوں میں ہی کانگریس سے پریشان ہوکر سنہ 1967 میں وہ جن سنگھ میں چلی گئیں۔ وجیہ راجے سندھیا کی مدد سے، جن سنگھ گوالیار خطے میں مضبوط ہوگئی اور 1971 میں اندرا گاندھی کی لہر کے باوجود، جن سنگھ یہاں تین سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔ وجیہ راجے خود بھنڈ سے، اٹل بہاری واجپئی گوالیار سے اور وجیہ راجے سندھیا کے بیٹے اور جیوتی رادتیہ سندھیا کے والد مادھو راؤ سندھیا گنا سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔

گنا پر سندھیا کنبہ کا قبضہ طویل عرصہ تک رہا۔

مادھو راؤ سندھیا صرف 26 سال کی عمر میں رکن پارلیمان منتخب کیے گئے تھے لیکن وہ بہت دن تک نہیں رکے-1977 میں ایمرجنسی کے بعد ان کے راستے اپنی ماں وجی راجے سندھیا سے الگ ہوگئے۔ 1980 میں مادھو راؤسندھیا نے کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور جیت کر مرکزی وزیر بھی بنے۔

دوسری جانب وجے راجے سندھیا کی بیٹیوں وسندھرا راجے سندھیا اور یشودھرا راجے سندھیا بھی سیاست میں داخل ہوئیں۔ سنہ 1984 میں وسندھرا راجے بی جے پی میں شامل ہوئیں۔ وہ کئی بار راجستھان کی سی ایم بھی بن چکی ہیں۔ ان کے بیٹے دشینت بھی بی جے پی سے ہی راجستھان کی جھالواڑ سیٹ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔

ان سب سے الگ جیوتی رادتیہ سندھیا اپنے والد کی میراث کو سنبھالتے رہے اور کانگریس کے مضبوط رہنما بنے رہے۔ سنہ 2001 میں ایک حادثے میں مادھو راؤ سندھیا کی موت ہو گئی۔گنا سیٹ پر ضمنی انتخاب ہوئے تو جیوتی رادتیہ سندھیا رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ 2002 میں پہلی جیت کے بعد جیوتی رادتیہ سندھیا کی کبھی بھی انتخاب میں شکست نہیں ہوئی تھی لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں انہیں وہ اپنے ہی حمایتی رہے کرشن پال سنگھ یادو نے ہی سندھیا کو شکست دے دی۔

جیوتی رادتیہ سندھیا کبھی بھی وزیر اعلی نہیں بن سکے لیکن ابھی بھی ان کی طرف 23 ارکان اسمبلی مانے جاتے ہیں۔ ان میں سے 6 کر وزیر بھی بنایا گیا ہے۔ انہیں ارکان اسمبلی نے کمل ناتھ حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ہی جیوتی رادتیہ سندھیا خود کو اکیلا محسوس کر رہے تھے۔ کئی دفع انہوں نے مدھیہ پردیش کے صدر کے عہدے کا مطالبہ کیا لیکن وہ بھی انہیں نہیں دیا گیا۔ نومبر 2019 میں کانگریس پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفی دینا بھی ان کے کام نہیں آیا۔

13 مارچ کو راجیہ سبھا انتخاب کے لیے نامزدگی کا آخری دن ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سندھیا خود کے لیے راجیہ سبھا سیٹ یا مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر کا عہدہ چاہتے ہیں۔

مدھیہ پردیش حکومت کے 6 وزراء سمیت کل 17 ارکان اسمبلی بنگلورو میں موجود ہیں۔ یہ تمام جیوتی رادتیہ سندھیا کے خاص مانے جاتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سب نے اپنے فون بند کر لیے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی سندھیا اپنے حمایتیوں کے ساتھ بی جے پی کی رکنیت لینے جا رہے ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ جیوتی رادتیہ نے وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی ہے اور آج وہ ایک بڑا اعلان کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کے ذریعہ جیوتی رادتیہ کو راجیہ سبھا کی رکنیت اور مرکز میں وزارتی عہدہ دیا جاسکتا ہے۔

گوالیار پر حکمرانی کرنے والی 'راجماتا وجیہ راجے سندھیا' نے اپنی سیاست کا آغاز 1957 میں کانگریس سے کیا تھا۔ وہ گنا لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیمان کے طور پر منتخب ہوئی تھیں۔

وہ صرف 10 برسوں میں ہی کانگریس سے پریشان ہوکر سنہ 1967 میں وہ جن سنگھ میں چلی گئیں۔ وجیہ راجے سندھیا کی مدد سے، جن سنگھ گوالیار خطے میں مضبوط ہوگئی اور 1971 میں اندرا گاندھی کی لہر کے باوجود، جن سنگھ یہاں تین سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔ وجیہ راجے خود بھنڈ سے، اٹل بہاری واجپئی گوالیار سے اور وجیہ راجے سندھیا کے بیٹے اور جیوتی رادتیہ سندھیا کے والد مادھو راؤ سندھیا گنا سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔

گنا پر سندھیا کنبہ کا قبضہ طویل عرصہ تک رہا۔

مادھو راؤ سندھیا صرف 26 سال کی عمر میں رکن پارلیمان منتخب کیے گئے تھے لیکن وہ بہت دن تک نہیں رکے-1977 میں ایمرجنسی کے بعد ان کے راستے اپنی ماں وجی راجے سندھیا سے الگ ہوگئے۔ 1980 میں مادھو راؤسندھیا نے کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور جیت کر مرکزی وزیر بھی بنے۔

دوسری جانب وجے راجے سندھیا کی بیٹیوں وسندھرا راجے سندھیا اور یشودھرا راجے سندھیا بھی سیاست میں داخل ہوئیں۔ سنہ 1984 میں وسندھرا راجے بی جے پی میں شامل ہوئیں۔ وہ کئی بار راجستھان کی سی ایم بھی بن چکی ہیں۔ ان کے بیٹے دشینت بھی بی جے پی سے ہی راجستھان کی جھالواڑ سیٹ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔

ان سب سے الگ جیوتی رادتیہ سندھیا اپنے والد کی میراث کو سنبھالتے رہے اور کانگریس کے مضبوط رہنما بنے رہے۔ سنہ 2001 میں ایک حادثے میں مادھو راؤ سندھیا کی موت ہو گئی۔گنا سیٹ پر ضمنی انتخاب ہوئے تو جیوتی رادتیہ سندھیا رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ 2002 میں پہلی جیت کے بعد جیوتی رادتیہ سندھیا کی کبھی بھی انتخاب میں شکست نہیں ہوئی تھی لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں انہیں وہ اپنے ہی حمایتی رہے کرشن پال سنگھ یادو نے ہی سندھیا کو شکست دے دی۔

جیوتی رادتیہ سندھیا کبھی بھی وزیر اعلی نہیں بن سکے لیکن ابھی بھی ان کی طرف 23 ارکان اسمبلی مانے جاتے ہیں۔ ان میں سے 6 کر وزیر بھی بنایا گیا ہے۔ انہیں ارکان اسمبلی نے کمل ناتھ حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ہی جیوتی رادتیہ سندھیا خود کو اکیلا محسوس کر رہے تھے۔ کئی دفع انہوں نے مدھیہ پردیش کے صدر کے عہدے کا مطالبہ کیا لیکن وہ بھی انہیں نہیں دیا گیا۔ نومبر 2019 میں کانگریس پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفی دینا بھی ان کے کام نہیں آیا۔

13 مارچ کو راجیہ سبھا انتخاب کے لیے نامزدگی کا آخری دن ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سندھیا خود کے لیے راجیہ سبھا سیٹ یا مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر کا عہدہ چاہتے ہیں۔

مدھیہ پردیش حکومت کے 6 وزراء سمیت کل 17 ارکان اسمبلی بنگلورو میں موجود ہیں۔ یہ تمام جیوتی رادتیہ سندھیا کے خاص مانے جاتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سب نے اپنے فون بند کر لیے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی سندھیا اپنے حمایتیوں کے ساتھ بی جے پی کی رکنیت لینے جا رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.