ETV Bharat / city

بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد سے خصوصی گفتگو - dr razia hamid

ای ٹی وی بھارت اردو کی خاص پیشکش "ایک شخصیت" کے تحت بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد سے خصوصی گفتگو کی گئی۔ ڈاکٹر رضیہ حامد مدھیہ پردیش کی واحد ایسی ادیبہ ہیں جن کی ابھی تک 29 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

exclusive interview with famous writer of bhopal dr razia hamid
بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد سے خصوصی گفتگو
author img

By

Published : Apr 2, 2021, 8:59 PM IST

مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد نام کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کے تعلیمی دور سے لے کر آج تک کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ رضیہ حامد ایک غیر معمولی صلاحیت کی حامل شخصیت ہیں۔

بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد سے خصوصی گفتگو

ڈاکٹر رضیہ حامد کی علمی خدمات کی شہرت صرف بھوپال میں ہی محدود نہیں ہے بلکہ ریاست مدھیہ پردیش کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دوسری ریاستوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ ریاست مدھیہ پردیش کی ایک واحد ایسی ادیبہ ہیں جن کی اب تک 29 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر رضیہ حامد کی ہر کتاب ان کی لطیف اور گہری نظر کی گواہ ہیں کیونکہ وہ مواد کی دستیابی کے لیے کافی محنت کرتی ہیں۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا ایسے شہر سے پیدائشی تعلق ہے جہاں کی خواتین تعلیم کے میدان میں بہت سے کمالات دکھا چکی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ نواب سلطان جہاں بیگم کے بعد بھوپال میں اگر کوئی خاتون تعلیم و ادب کے لیے کوشاں ہے اور جو دہلی-نوئیڈا میں بھی سرگرم عمل رہیں تو وہ ڈاکٹر رضیہ حامد ہیں۔

انہوں نے اپنی زیرِ نگرانی فکر و آگہی کے بڑے نمبر نکالے جن میں فکر و آگہی بشیربدر نمبر ان کا خاص نمبر نکالنے کا پہلا قدم تھا۔ اس کے بعد کئی اور نمبر مثلاً علی گڑھ نمبر، بھوپال نمبر، رفعت سروش نمبر، بیکل اتساہی نمبر، اوپیرا نمبر وغیرہ نکالے۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خصوصی لگاؤ اور محبت قابل تعریف ہے۔ اے ایم یو اور اس کے بانی و قوم کے رہنما سرسید احمد خان کے تئیں ان کا ادب و احترام اور علی گڑھ تحریک کے لیے ان کا جذبہ تشکر اور بے پناہ محبت کا ثبوت ان کی فکر و آگہی میں "علی گڑھ تحریک سرسید اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ" کا شمارہ ہے، جو 992 صفحات پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا ایک عظیم کارنامہ برصغیر کی جید عالم نواب صدیق حسن خان پر تحقیقی کام ہے۔ رضیہ حامد اردو زبان و ادب کی جو خدمت کر رہی ہے اسے مستقبل کا مؤرخ اسے فراموش نہیں کرسکے گا۔

اردو ادب میں عالمی شہرت حاصل کرنے میں جن لوگوں نے ڈاکٹر رضیہ حامد کے لیے ایثار کیا، اس میں ان کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد اور ان کے چاروں بچے عامر، عاصم، عاطف اور بیٹی صالحہ حامد ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے لیکن رضیہ حامد کے بارے میں یہ کہاوت اس کے برعکس ہے۔ آپ کی کامیابی کے پیچھے آپ کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد صاحب کا ہاتھ ہے۔

ان کے شوہر بحیثیت انجینئر بھیل (BHEL) میں اعلیٰ عہدے پر بھوپال میں فائز تھے۔ 1979ء میں ان کا تبادلہ دہلی ہو جانے کے سبب پورا گھر نقل مکانی کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر گیا۔

رضیہ حامد نے تشنگی علم و ادب کی تسکین کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا اور اس وقت پروفیسر گوپی چند نارنگ صدر شعبہ اردو تھے۔ دوسرے اساتذہ میں ڈاکٹر عنوان چشتی، ڈاکٹر مظفر حنفی، ڈاکٹر شمیم حنفی، صغرا مہدی جیسی شخصیات تھیں جنہوں نے آپ کے ذوقِ علم و ادب کو مزید جلا بخشی۔ جامعہ کا ماحول بہت اچھا تھا، سیمینار وغیرہ خوب ہوتے تھے جن میں ملک اور بیرون ملک کی بڑی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ ان پروگرامز سے انہوں نے خوب استفادہ کیا۔ ان کی تشنگئ علم، محنت، لگن اور ذوق نے انہیں ایک بلند مقام تک پہنچا دیا۔

مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد نام کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کے تعلیمی دور سے لے کر آج تک کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ رضیہ حامد ایک غیر معمولی صلاحیت کی حامل شخصیت ہیں۔

بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد سے خصوصی گفتگو

ڈاکٹر رضیہ حامد کی علمی خدمات کی شہرت صرف بھوپال میں ہی محدود نہیں ہے بلکہ ریاست مدھیہ پردیش کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دوسری ریاستوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ ریاست مدھیہ پردیش کی ایک واحد ایسی ادیبہ ہیں جن کی اب تک 29 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر رضیہ حامد کی ہر کتاب ان کی لطیف اور گہری نظر کی گواہ ہیں کیونکہ وہ مواد کی دستیابی کے لیے کافی محنت کرتی ہیں۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا ایسے شہر سے پیدائشی تعلق ہے جہاں کی خواتین تعلیم کے میدان میں بہت سے کمالات دکھا چکی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ نواب سلطان جہاں بیگم کے بعد بھوپال میں اگر کوئی خاتون تعلیم و ادب کے لیے کوشاں ہے اور جو دہلی-نوئیڈا میں بھی سرگرم عمل رہیں تو وہ ڈاکٹر رضیہ حامد ہیں۔

انہوں نے اپنی زیرِ نگرانی فکر و آگہی کے بڑے نمبر نکالے جن میں فکر و آگہی بشیربدر نمبر ان کا خاص نمبر نکالنے کا پہلا قدم تھا۔ اس کے بعد کئی اور نمبر مثلاً علی گڑھ نمبر، بھوپال نمبر، رفعت سروش نمبر، بیکل اتساہی نمبر، اوپیرا نمبر وغیرہ نکالے۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خصوصی لگاؤ اور محبت قابل تعریف ہے۔ اے ایم یو اور اس کے بانی و قوم کے رہنما سرسید احمد خان کے تئیں ان کا ادب و احترام اور علی گڑھ تحریک کے لیے ان کا جذبہ تشکر اور بے پناہ محبت کا ثبوت ان کی فکر و آگہی میں "علی گڑھ تحریک سرسید اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ" کا شمارہ ہے، جو 992 صفحات پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر رضیہ حامد کا ایک عظیم کارنامہ برصغیر کی جید عالم نواب صدیق حسن خان پر تحقیقی کام ہے۔ رضیہ حامد اردو زبان و ادب کی جو خدمت کر رہی ہے اسے مستقبل کا مؤرخ اسے فراموش نہیں کرسکے گا۔

اردو ادب میں عالمی شہرت حاصل کرنے میں جن لوگوں نے ڈاکٹر رضیہ حامد کے لیے ایثار کیا، اس میں ان کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد اور ان کے چاروں بچے عامر، عاصم، عاطف اور بیٹی صالحہ حامد ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے لیکن رضیہ حامد کے بارے میں یہ کہاوت اس کے برعکس ہے۔ آپ کی کامیابی کے پیچھے آپ کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد صاحب کا ہاتھ ہے۔

ان کے شوہر بحیثیت انجینئر بھیل (BHEL) میں اعلیٰ عہدے پر بھوپال میں فائز تھے۔ 1979ء میں ان کا تبادلہ دہلی ہو جانے کے سبب پورا گھر نقل مکانی کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر گیا۔

رضیہ حامد نے تشنگی علم و ادب کی تسکین کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا اور اس وقت پروفیسر گوپی چند نارنگ صدر شعبہ اردو تھے۔ دوسرے اساتذہ میں ڈاکٹر عنوان چشتی، ڈاکٹر مظفر حنفی، ڈاکٹر شمیم حنفی، صغرا مہدی جیسی شخصیات تھیں جنہوں نے آپ کے ذوقِ علم و ادب کو مزید جلا بخشی۔ جامعہ کا ماحول بہت اچھا تھا، سیمینار وغیرہ خوب ہوتے تھے جن میں ملک اور بیرون ملک کی بڑی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ ان پروگرامز سے انہوں نے خوب استفادہ کیا۔ ان کی تشنگئ علم، محنت، لگن اور ذوق نے انہیں ایک بلند مقام تک پہنچا دیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.