اس موقع پر ادبا اور اداکاروں کے لیے منعقد اعزازیہ تقریب میں ڈاکٹر راحت اندوری نے ایسا کلام پیش کیا کہ سامعین محظوظ ہوگئے۔
اپنےالگ مزاج اور الگ انداز کی شاعری کے لیے شناخت بنانے والے شاعر راحت اندوری صحیح معنوں میں عوام کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری بے حد دلکش اور پانیدار ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر راحت اندوری اپنی شاعری کے لیے عوامی مقبولیت کا کوئی ایسا آسان راستہ نہیں انتخاب کرتے جو شاعری کی عزت کم کریں۔
ان کی شاعری ان سے زیادہ ان کے سننے والوں کو یاد رہتی ہے، یہی ان کی عوامی مقبولیت کا سب سے اہم پہلوہے۔
ریاست کی سب سے اعلیٰ اعزاز کے موقع پر ادبا اور اداکاروں کی جانب سے اپنےاعزاز میں ڈاکٹر راحت اندوری نے سماں باندھا اور آغاز اپنے ایک شعر سے کیا۔
پیش ہے راحت اندوری کے شعر...
غم ہائے عشق میں غم ِ دنیا بھی پل گیا
سکے کئی کھرے تھے تو کھوٹہ بھی چل گیا
انہوں نے آگے کہا کہ سرکاریں مجھے پسند نہیں کرتی اس پر انہوں نے ایک اور شعر کہا :۔
ایک حکومت ہے جو انعام بھی دے سکتی ہے
ایک قلندر ہے جو انکار بھی کرسکتا ہے
انہوں نے اداکاروں اور ادیبوں کی جانب سے مدھیہ پردیش سرکار کا شکریہ ادا کیا۔