صحت کارکن پونم بھادے نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں کہا کہ 'بھگوان نے انہیں اسی دن کے لیے محکمہ صحت میں ملازمت دی ہے، اسی لیے اہل خانہ بعد میں اور ملک پہلے'۔
پونم بتاتی ہیں کہ 'ان کا تبادلہ جیسے ہی برہان پور سے چھندواڑا ہوا انہیں لگا کہ وہ اب اپنے 14 ماہ کی بیٹی کے ساتھ بیش قیمتی وقت گذار سکیں گی، لیکن اسی دوران لاک ڈاون کا اعلان ہو گیا اور ان کے صحت مرکز کو قرنطین میں تبدیل کر دیا گیا۔
پونم بھادے جس قرنطین مرکز میں ڈیوٹی پر مامور ہیں اس میں کورونا کے چار مثت مریض مل چکے ہیں، لیکن بغیر کسی خوف اور ڈر کے اپنے فرض کو ترجیح دیتے ہوئے مسلسل وہ کام کررہی ہیں، در اصل چھندواڑا میں کورونا مریض کے رابطے میں آئے سبھی لوگوں کو اسی قرنطین مرکز میں رکھا جاتا ہے۔
نادانستہ طور پر کورونا ان کے گھر تک نہ پہنچ جائے اسی لیے وہ ایک ماہ سے اپنی بیٹی سے نہیں ملی ہیں، حالانکہ ماں کی ممتا ایسی ہوتی ہے کہ وہ مانتی نہیں، ویڈیو کالنگ کے ذریعے وہ ہر روز اپنی بیٹی کا دیدار اور دلار کر لیتی ہیں۔
پونم بھادے بتاتی ہیں ان کے شوہر ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں، لہذا انوں نے اپنی بیٹی کو گاؤں میں دادا اور دادی کے پاس چھوڑ دیا۔
اس منتقلی کے دور میں جہاں ہر کوئی اپنے گھر سے نکلنے سے گھبراتا ہے وہیں کورونا واریئر پونم بھادے بتاتی ہیں کہ اس کے شوہر سمیت ان کے اہل خانہ کے تمام افراد نے کہا ہے کہ بحران کی اس گھڑی میں ملک کو ان کی ضرورت ہے، لہٰذا وہ کام کرٰں بیٹی کو اہل خانہ سنبھال لے گا، ان کا کہنا تھا کہ اہل خانہ کی مدد کی وجہ سے ہی وہ اتنی مضوبوطی کے ساتھ اپنے فررض کو انجام دے پا رہی ہیں،
پونم بھادے مزید کہتی ہیں کہ انفیکشن کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی انہیں گاؤں میں کرایہ پر مکان نہیں دے رہا ہے، اس لیے وہ ہر روز آنا جانا کرتی ہیں اسکوٹی کے ذریعے وہ روزانہ 25 کلومیٹر کا سفر کر کرتی ہیں۔