اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری ایک خدا داد صلاحیت ہے، لیکن رباعیات میں خدا نے اسلم پرویز کو جس کمال وصف سے نواز ہے یقینا وہ قابل تعریف ہے۔
اسلم پرویز بتاتے ہیں کہ ان کی شاعری کے سفر کا آغاز بھی دیگر شعراء کی طرح غزل کے فن سے ہوا لیکن بعد میں طبعی طور پر رباعیات کی جانب ان کے رجحان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حالانکہ ابتداء میں اسلم پرویز سائنس کے طالب علم رہے لیکن اتفاقیہ طور پر اردو کی طرف رجحان ہوا اور پھر اردو شاعری خاص طور پر رباعیات میں ایک معتبر شاعر کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کیا۔
ان کی رباعیات کے قدر کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے رباعیات کے مجموعہ کلام کا اداریہ بہار کے معروف و مقبول ادیب و شاعر اور ڈیڑھ سو کتابوں کے مصنف علامہ ناوک حمزہ پوری نے تحریر کیا ہے۔ موجودہ وقت میں اردو کے تئیں نوجوانوں کی بے رغبتی سے اسلم پرویز حیران تو ہیں لیکن اردو کے روشن مستقبل سے مایوس قطعی نہیں ہیں۔
اسلم پرویز کے کلام کی تعریف اور حوصلہ افزائی جیلانی بانو، موجودہ دور کے اردو کے سب سے بڑے ناقد شمس الرحمان فاروقی سمیت کئی بڑے شاعر و ادیب بھی ان کے کلام کی ستائش کرچکے ہیں۔ کم عمری میں اپنے کلام کی اس قدر پذیرائی کے باوجود اسلم پرویز خود کو ہمیشہ ناموری سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ' رباعی عربی کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔
مزید پڑھیں:
معروف شاعر خالد زاہد سے خاص بات چیت
اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے۔ عروض کی مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔ رباعی، ترانہ اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔رباعی کا موجد فارسی شاعر رودکی کو مانا جاتا ہے۔