ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں مڈیکیری اسمبلی حلقہ کے رکن اسمبلی اپچو رنجن نے ٹیپو سلطان کو لےکر ایک اور نیا اور متنازعہ بیان دیا ہے۔
اپچو رنجن نے ایک خط کے ذریعے ریاستی وزیر برائے تعلیم سریش کمار سے یہ اپیل کی ہےکہ ٹیپو سلطان کا نام اسکول و کالج کے نصاب سے نکالا جائے کیونکہ ٹیپو سلطان ایک ظالم بادشاہ تھے۔
اپچو رنجن نے اس خط میں ٹیپو سلطان کو کنڑا زبان مخالف و جنونی بتایا ہے، رنجن نے ٹیپو پر الزام لگایا کہ انہوں نے جبراً ہندوؤں کو اسلام قبول کروایا تھا۔
اپچو رنجن نے وزیر تعلیم سےمزید گزارش کی کہ مورخوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور رنجن اپنی دلیل کو ثابت کرنے کے لئے متعلقہ دستاویزات بھی پیش کریں گے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے شہر کی اہم شخصیات و معروف سماجی کارکنان سے بات کی اور ان کی رائے جانی، کہ ان کے اس متنازعہ بیان سے متعلق ان کا کیا رد عمل ہے۔
بی جے پی رکن اسمبلی کے اس رد عمل سے سماجی کارکن تنویر احمد کہتے ہیں کہ 'بی جے پی اور آر ایس ایس والوں کی ذہنیت میں ہی نفرت بھری ہوئی ہے، بی جے پی کو نہ ہی تاریخ کا علم ہے اور نہ ہی ریاست کی ترقی کے لئے کچھ کرنے کی فکر۔
تنویر احمد نے بتایا کہ ٹیپو سلطان کے ایک عظیم حکمران ہونے کی گواہی بھارت کی تاریخ دیتی ہے، یہ سب ٹیپو سلطان کی ہی دین ہے خواہ 'سلک' ریشم کی صنعت ہو، یا پسماندہ طبقے کی آزادی کا معاملہ ہو، یا پھر راکیٹ سائنس، پوری دنیا اس سے بخوبی واقف ہے۔
تنویر احمد نے مزید کہا کہ 'بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے ایسے اقدام یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کے لئے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
جے ڈی ایس پارٹی کے سینیئر نائب صدر سید شفیع اللہ اس تعلق سے کہتے ہیں کہ یہ بات عیاں ہے کہ سنگھ پریوار کا جنگ آزادی میں کوئی رول نہیں تھا سوائے برطانوی حکمرانوں کی مخبری کے۔
اسی لئے بی جے پی رہنما وطن کی آزادی کے مجاہدین کو ناپسند کرتے ہیں، خواہ وہ ٹیپو سلطان ہو ں یا مہاتما گاندھی، تبھی تو ملک کا پہلا عسکریت پسند ناتھورام گوڈسے ہے،جس نے ملک کے عظیم رہنما مہاتما گاندھی کو قتل کیا۔
سید شفیع اللہ نے یہ بھی کہا کہ ٹیپو سلطان وہ واحد فرمانروا ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانوی حکومت سے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوئے اور سلطان ہوتے ہوئے ایک معمولی سپاہی کی طرح جام شہادت نوش کی۔
'ٹیپو یونائٹیڈ فرنٹ تنظیم' کے رکن سید اکبر قریشی نے اس موقع پر کانگریس پارٹی پر طنز کرتے ہوئے سوال کیا کہ بی جے پی کی نفرت پر مبنی اس سیاست کے خلاف کانگریس کے نام نہاد مسلم و سیکولر لیڈران کیوں خاموش ہیں؟ کیا ٹیپو جینتی کا منانا کانگریس پارٹی کے لیے بھی ووٹ بینک کی سیاست تھی؟
سید اکبر نے بتایا کہ کانگریس پارٹی نے ریاست کے مسلمانوں سے 'ٹیپو یونیورسٹی' کا جو وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک اوراق ہی میں دفن ہے،جس کے لئے ہماری جد و جہد جاری ہے۔
اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے شیعہ رہنما مرزا احمد نے کہا کہ 'بی جے پی کی تاریخ کو مسخ کرنے کہ اس کوشش کو ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دینگے'۔
ہم وزیر اعلیٰ بی ایس یڈورپا سے اپیل کرتے ہیں کہ 'اس قسم کے اقدامات سے گریز کریں اور اپنا فیصلہ واپس لیں، بصورت دیگر اس نفرت انگیزی اور جھوٹی و من گھڑت باتوں سے ملک کی عظیم تاریخ کو بچانے کے لئے ایک ریاست گیر مہم چھیڑی جائیگی'۔
یاد رہے کہ تین ماہ قبل ریاست کرناٹک میں بی جے پی حکومت کی تشکیل دینے اور یڈورپا کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سںبھالنے کے چند روز بعد ٹیپو سلطان کی جینتی کو سرکاری طور پر منائے جانے کو رد کیا گیا تھا۔
بی جے پی کے اس اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے شہر کی سردار قریشی کی قیادت والی ایک معروف سماجی تنظیم 'ٹیپو یونائٹیڈ فرنٹ' کی جانب سے ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل کی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہائی کورٹ نے یڈیورپا حکومت کو ایک نوٹس جاری کیا ہے اور معاملہ زیر سماعت ہے۔
مزید پڑھیں: بغدادی کی ہلاکت سے ٹرمپ کو کتنا فائدہ؟
یاد رہے کہ یڈیورپا نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لینے کے بعد یہ کہا تھا کہ وہ نفرت کی سیاست نہیں کرینگے، لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ یڈیورپا کے ساتھ ساتھ ان کے متعدد ساتھی جن میں اپچو رنجن و ایشورپا سرفہرست ہیں، یہ رہنما اقلیتی و مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات سے ریاست کی فضا مسموم کر رہے ہیں جس کی عوامی حلقوں سے زبردست مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔