ETV Bharat / city

کشمیر کے معاملے پر دانشوروں کا کیا کہنا ہے؟

ریاست کرناٹک کے ضلع بنگلور میں واقع بھارت اسکاؤٹس ہال میں بنگلورو ساؤتھ ضلع کانگریس کمیٹی کی جانب سے ایک قومی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں 'فرقہ وارانہ بحران' کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈاکٹر رام پنیانی
author img

By

Published : Sep 13, 2019, 11:01 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 12:46 PM IST

اس تقریب میں موضوع "فرقہ وارانہ بحران" پر عالمی شہرت یافتہ مقرر ڈاکٹر رام پنیانی نے تقریر کی، "آرٹیکل 370" کے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ناگ موہن داس نے تفصیل پیش کی اور "ملک کے پلیورالزم کے ساتھ چیلینجس" موضوع پر معروف مصنف پروفیسر ڈاکٹر ایم ایس آشا دیوی نے تقریر کی۔

ڈاکٹر رام پنیانی

اس موقع پر جسٹس ناگ موہن داس نے حاضرین سے کہا کہ 'مرکزی حکومت کے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا جانا دستور ہند کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'کشمیر کا آرٹیکل 370 ملک ہند کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، جس کو صدر ہند کے کسی آرڈر سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور اس کے متعلق حکومت کے اقدام غیر دستور و غیر قانونی ہے اور فیڈرلزم کے خلاف ہے۔'

جسٹس ناگ موہن داس نے مزید کہا کہ 'ہمیں اگر ایک دن بھی اخبار نہ ملے تو بیچین ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال کیا کہ کشمیر میں لگی پابندیوں کا پتہ نہیں چلا؟ اگر پتہ چلا تو پھر خاموشی کیوں اختیار کی؟ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا آرٹیکل 370 کے منسوخی کے متعلق خاموشی نہایت افسوس کی بات ہے۔'

جسٹس ناگ موہن داس جے کہا کہ 'مرکزی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ریاست میں کسی بھی قسم کہ تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں بشرط یہ کہ وہ آرٹیکل تین کے مطابق اس ریاست کی چنندہ اسمبلی سے اس کی رائے لینا لازمی ہے۔ کشمیر کے متعلق جو حکومت نے اسمبلی کی رائے کے بغیر اسے دو ٹکڑے کر اسے تباہ کیا ہے وہ یہ سراسر دستور خلاف ورزی ہے۔'

جسٹس ناگ موہن داس نے مرکزی وزیر برائے قانون کی اس بات کو سراسر جھوٹی بتایا جہاں وزیر موصوف نے یہ کہا تھا کہ 'آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہم دستور ہند کو جمو و کشمیر میں جاری کیا جا سکتا ہے۔'

ڈاکٹر رام پنیانی نے اپنے خطاب میں نہایت ہی شاندار انداز میں سامعین کو بتایا کہ 'کس طرح برٹش کے دور اقتدار میں فرقہ واریت کی ابتداء ہوئی۔ "پھوٹ ڈالو حکومت کرو" فارمولے کو نافذ کر ہندوستان کو کمزور کیا اقتدار پر قابض رہے۔ ہر مذہب ہمیں اخلاقیات و محبت کا سبق دیتا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'موجودہ پیچیدہ حالات میں یہ ہم سبھی کی ذمے داری ہے کہ ہم کئی دلوں میں پھیلی نفرت کو بے اثر کر پیار و محبت کو فروغ دیں۔'

پروفیسر آشا دیوی نے اپنے موضوع کا خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ 'صدیوں سے ہم مساوات کو ترس رہے ہیں لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھی ہم اس سے آشنا نہیں ہوئے۔' ہندوستان کے پلورلزم کی یہی ستم ظریفی ہے کہ یہاں ابھی بھی عدم مساوات عام ہے۔ آزادی کے بعد دستور کے اپنانے کے بعد بھی سماجی انصاف ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔'

اس قومی سمپوزیم کو بنگلورو ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے راجیہ سبھا کے ایم پی بی کے ہری پرساد کی ذیر نگرانی چلایا گیا۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بی کے ہری پرساد نے کہا ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور ہم نے اس نیت سے کہ ان حالات کے بارے میں اور خاص کر آرٹیکل 370 جیسے موضوع کے متعلق کانگریس ورکرس و عوام الناس کو آگاہ کریں یہ سمپوزیم کا انعقاد کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری ہے کہ سویل سوسائٹی متحد ہوکر آگے آئے اور ملک کے دستور و جمہوریت کی حفاظت کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔

اس تقریب میں موضوع "فرقہ وارانہ بحران" پر عالمی شہرت یافتہ مقرر ڈاکٹر رام پنیانی نے تقریر کی، "آرٹیکل 370" کے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ناگ موہن داس نے تفصیل پیش کی اور "ملک کے پلیورالزم کے ساتھ چیلینجس" موضوع پر معروف مصنف پروفیسر ڈاکٹر ایم ایس آشا دیوی نے تقریر کی۔

ڈاکٹر رام پنیانی

اس موقع پر جسٹس ناگ موہن داس نے حاضرین سے کہا کہ 'مرکزی حکومت کے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا جانا دستور ہند کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'کشمیر کا آرٹیکل 370 ملک ہند کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، جس کو صدر ہند کے کسی آرڈر سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور اس کے متعلق حکومت کے اقدام غیر دستور و غیر قانونی ہے اور فیڈرلزم کے خلاف ہے۔'

جسٹس ناگ موہن داس نے مزید کہا کہ 'ہمیں اگر ایک دن بھی اخبار نہ ملے تو بیچین ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال کیا کہ کشمیر میں لگی پابندیوں کا پتہ نہیں چلا؟ اگر پتہ چلا تو پھر خاموشی کیوں اختیار کی؟ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا آرٹیکل 370 کے منسوخی کے متعلق خاموشی نہایت افسوس کی بات ہے۔'

جسٹس ناگ موہن داس جے کہا کہ 'مرکزی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ریاست میں کسی بھی قسم کہ تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں بشرط یہ کہ وہ آرٹیکل تین کے مطابق اس ریاست کی چنندہ اسمبلی سے اس کی رائے لینا لازمی ہے۔ کشمیر کے متعلق جو حکومت نے اسمبلی کی رائے کے بغیر اسے دو ٹکڑے کر اسے تباہ کیا ہے وہ یہ سراسر دستور خلاف ورزی ہے۔'

جسٹس ناگ موہن داس نے مرکزی وزیر برائے قانون کی اس بات کو سراسر جھوٹی بتایا جہاں وزیر موصوف نے یہ کہا تھا کہ 'آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہم دستور ہند کو جمو و کشمیر میں جاری کیا جا سکتا ہے۔'

ڈاکٹر رام پنیانی نے اپنے خطاب میں نہایت ہی شاندار انداز میں سامعین کو بتایا کہ 'کس طرح برٹش کے دور اقتدار میں فرقہ واریت کی ابتداء ہوئی۔ "پھوٹ ڈالو حکومت کرو" فارمولے کو نافذ کر ہندوستان کو کمزور کیا اقتدار پر قابض رہے۔ ہر مذہب ہمیں اخلاقیات و محبت کا سبق دیتا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'موجودہ پیچیدہ حالات میں یہ ہم سبھی کی ذمے داری ہے کہ ہم کئی دلوں میں پھیلی نفرت کو بے اثر کر پیار و محبت کو فروغ دیں۔'

پروفیسر آشا دیوی نے اپنے موضوع کا خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ 'صدیوں سے ہم مساوات کو ترس رہے ہیں لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھی ہم اس سے آشنا نہیں ہوئے۔' ہندوستان کے پلورلزم کی یہی ستم ظریفی ہے کہ یہاں ابھی بھی عدم مساوات عام ہے۔ آزادی کے بعد دستور کے اپنانے کے بعد بھی سماجی انصاف ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔'

اس قومی سمپوزیم کو بنگلورو ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے راجیہ سبھا کے ایم پی بی کے ہری پرساد کی ذیر نگرانی چلایا گیا۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بی کے ہری پرساد نے کہا ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور ہم نے اس نیت سے کہ ان حالات کے بارے میں اور خاص کر آرٹیکل 370 جیسے موضوع کے متعلق کانگریس ورکرس و عوام الناس کو آگاہ کریں یہ سمپوزیم کا انعقاد کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری ہے کہ سویل سوسائٹی متحد ہوکر آگے آئے اور ملک کے دستور و جمہوریت کی حفاظت کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔

Intro:آرٹیکل 370 کی منسوخی دستور ہند سے دھوکہ ہے: جسٹس ناگ موہن داس


Body:آرٹیکل 370 کی منسوخی دستور ہند سے دھوکہ ہے: جسٹس ناگ موہن داس

EXCLUSIVE

بنگلور: آج شہر بنگلور کے بھارت اسکاؤٹس ہال میں بنگلورو ساؤتھ ضلع کانگریس کمیٹی کی جانب سے ایک قومی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا جو کہ تون اہم نکات پر مشتمل تھا. موضوع "فرقہ وارانہ بحران" پر عالمی شہرت یافتہ مقرر ڈاکٹر رام پنیانی نے تقریر کی، "آرٹیکل 370" کے متعلق کرناٹکا ہائ کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ناگ موہن داس نے تفصیل پیش کی اور "ملک کے پلیورالزم کے ساتھ چیلینجس" موضوع پر معروف مصنف پروفیسر ڈاکٹر ایم. ایس. آشا دیوی نے تقریر کی.

اس موقع پر جسٹس ناگ موہن داس نے حاضرین سے کہا کہ مرکزی حکومت کے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا جانا دستور ہند کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے. انہوں نے کہا کہ کشمیر کا آرٹیکل 370 ملک ہند کا ایک اٹوت حصہ ہے، جس کو صدر ہند کے کسی آرڈر سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور اس کے متعلق حکومت کے اقدام غیر دستور و غیر قانونی ہے اور فیڈرلزم کے خلاف ہے.

جسٹس ناگ موہن داس نے مزید کہا کہ ہمیں اگر ایک دن بھی اخبار نہ ملے تو بیچین ہوجاتے ہیں. ساتھ ہی انہوں یہ سوال کیا کہ کشمیر میں لگی پابندیوں کا علم کیا سپریم کورٹ پتہ نہیں ہوا؟ اگر پتہ چلا تو پھر خاموشی کیوں اختیار کی؟ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا آرٹیکل 370 کے منسوخی کے متعلق خاموشی نہایت افسوس کی بات ہے.

جسٹس ناگ موہن داس جے کہا کہ مرکزی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ریاست می کسی بھی قسم کہ تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں بشرطیکہ کہ وہ آرٹیکل 3 کے مطابق اس ریاست کی چنندہ اسمبلی سے اس کی رائے لینا لازمی ہے. اور کشمیر کے متعلق جو حکومت نے جو-کشمیر کی اسمبلی کی رائے کے بغیر اسے دو ٹکڑے کر اسے تباہ کیا ہے اور یہ سراسر دستور خلاف ورزی ہے.

جسٹس ناگ موہن داس نے مرکزی وزیر برائے قانون کی اس بات کو سراسر جھوٹی بتایا جہاں وزیر موصوف نے یہ کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہم دستور ہند کو جمو و کشمیر میں جاری کیا جاسکتا ہے.

ڈاکٹر رام پنیانی نے اپنے خطاب میں نیاہت ہی شاندار انداز میں سامعین کو بتایا کہ کس طرح برٹش کے دور اقتدار میں فرقہ واریت کی ابتداء ہوئے اور "پھوٹ ڈالو حکومت کرو" فارمولے کو نافذ کر ہندوستان کو کمزور کیا اور اقتدار پر قابض رہے. ڈاکٹر رام نے کہا کہ ہر مذہب ہمیں اخلاقیات و محبت کا سبق دیتا ہے. انہوں نے کہا کہ موجودہ پیچیدہ حالات میں یہ ہم سبھی کی ذمیداری ہے کہ ہم کئی دلوں میں پھیلی نفرت کو بے اثر کر پیار و محبت کو فروغ دیں.

پروفیسر آشا دیوی نے اپنے معضوع کا خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ صدیوں سے ہم مساوات کو ترس رہے ہیں لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھی ہم اس سے آشنا نہیں ہوئے. ہندوستان کے پلورلزم کا یہی ستم ظریفی ہے کہ یہاں ابھی بھی عدم مساوات عام ہے. پروفیسر آشا نے کہا کہ آزادی کے بعد دستور کے اپنانے کے بعد بھی سماجی انصاف ایک خواب ہی رہ گیا ہے.

اس قومی سمپوزیم کو بنگلورو ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے راجیہ سبھا کے ایم. پی بی. کے ہری پرساد کی ذیر نگرانی چلایا گیا. آی. ٹی. وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بی. کے. ہری پرساد نے کہا ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور ہم نے اس نیت سے کہ ان حالات کے بارے میں اور خاص کر آرٹیکل 370 جیسے موضوع کے متعلق کانگریس ورکرس و عوام الناس کو آگاہ کریں یہ سمپوزیم کا انعقاد کیا ہے. انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری ہے کہ سویل سوسائٹی متحد ہوکر آگے آئے اور ملک کے دستور و جمہوریت کی حفاظت کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں.

بائٹس...
1. جسٹس ناگ موہن داس، ریٹائرڈ جج، کرناٹکا ہائ کورٹ (ای میل)
2. ڈاکٹر رام پنیانی (ای میل)
3. بی. کے ہری پرساد، ایم. پی راجیہ سبھا
4. ڈاکٹر آشا دیوی، مصنف
5. منجولا نائدو، جنرل سیکرٹری، کرناٹکا کانگریس
6. ڈاکٹر ہمایوں سیٹھ، سماجی کارکن
7. شہر بانو، سیکرٹری، کرناٹکا کانگریس

Notes...
1. The first 2 bytes and visuals have been sent via email.
2. The remaining bytes from 3 to 7 are being sent via MoJo.

The number of bytes included here are more for the subject is of significance. Please ignore whichever bytes you think unnecessary.


Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 12:46 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.