اس اجلاس میں کئی اہم فیصلے لیے گئے، خاص طور پر نئی وقف بورڈ کی کمیٹی نے گزشتہ ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کو مسترد کردیا۔
وقف بورڈ میں موجود سبھی 10 ارکان نے متفقہ طور پر ایڈمنسٹریٹر سے قبل لیے گئے فیصلوں کو واپس لیا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر نے ایک سرکولر کے ذریعے تمام اضلاع کی وقف کمیٹیوں کو لکھ کر انہیں ہدایات دی تھی کہ وہ مذہبی اداروں کو رجسٹر کریں اور اپنے اپنے محلوں میں این آر سی کے تحت نام درج کرائیں۔
اس سرکولر سے عوام الناس میں کنفیوژن پیدا ہو گیا تھا، وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف نے کہا کہ 'ایسا سرکولر بھیجنے کا اختیار صرف بورڈ کو ہے نہ کہ ایڈمنسٹریٹر کو لہذا اس کو واپس لیا گیا۔
وقف بورڈ کمیٹی نے ایڈمنسٹریٹر کے ایک اور فیصلے کو مسترد کیا جو کہ ایڈمنسٹریٹر نے وقف بورڈ کے چیئرمین کے انتخابات کے ایک دن پہلے لیا تھا جس میں سبھی اضلاع کی وقف کمیٹیوں کو تحلیل کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے وقف بورڈ نے پرانی کمیٹیوں کو بحال بھی کیا۔
اس موقع پر وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ 'ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے لیے گئے فیصلے غیر قانونی تھے اور وقف کے متعلق پالیسیوں پر فیصلے لینے کا اختیار صرف بورڈ کو حاصل ہے۔