سنہ 2012 میں کرناٹک کے مختلف اضلاع میں کم و بیش 29 ہزار ایکڑ اوقافی جائدادوں پر ناجائز قبضے و غبن کے معاملات پر اس وقت کے ریاستی اقلیتی چئیرمین نے سروے کیا اور ایک تفصیلی رپورٹ تیار کر اس وقت کی برسر اقتدار بی جے پی حکومت کو سبمٹ کی تھی۔
سماجی حلقوں میں اسے ایک خوش آئند اقدام بتایا جارہا ہے اور یہ توقع کی جاری ہے کہ اس معاملے میں اعلیٰ سطح کی جانچ ہوگی، جس سے اوقافی جائدادوں کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرایا جا سکے گا اور خاطیوں کو سزا ملے گی۔
حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن یہ رپورٹ اسمبلی میں اب تک پیش نہیں کی گئی۔ انور مانیپاڈی معاملے کے تعلق سے اب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر کرناٹک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اس وقت کی ریاستی حکومت کانگریس کو احکامات جاری کئے کہ مذکورہ رپورٹ کو فوری طور پر ٹیبل کیا جائے، لیکن اس کے باوجود اسے اسمبلی میں بحث کے لئے پیس نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں:
گلبرگہ: زرعی بلز کے خلاف عام آدمی پارٹی کا احتجاج
اب یڈیورپا کی قیادت والی ریاست کی بی جے پی حکومت نے اس متنازعہ' انور مانیپاڈی رپورٹ' کو اسمبلی میں ٹیبل کر دیا ہے۔اس تعلق سے متعدد سماجی کارکنان نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ' اس معاملے میں سبھی مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ متحد ہوکر مظاہرہ کریں اور ملت کی اوقافی جائیدادوں کو قبضے سے چھڑائیں تاکہ مسلمانوں کو ان کا حق ملے۔