ETV Bharat / city

پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار

کورونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایسا کوئی طبقہ نہیں ہے جو متاثر نہ ہوا ہو، ایسے ہی حالات پتنگ سازی کی صنعت کے بھی ہیں۔

author img

By

Published : Dec 15, 2020, 3:49 PM IST

پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار
پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار

ریاست اترپردیش کے شہر بریلی میں مشہور و معروف پتنگ سازی کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ ہزاروں کاروباری معاشی بحران سے دو چار ہیں۔

پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار

شہر بریلی کو سُرما، فرنیچر، مانجھا، زری زردوزی کے علاوہ پتنگ سازی کے لیے عالمی سطح پر ایک منفرد شناخت حاصل ہے۔

کورونا وائرس کے انفیکشن کے بعد نافذ لاک ڈاون سے یہ کاروبار بالکل بے ترتیب اور تباہ ہوگئی ہے اور جس موسم میں پتنگ کو پرواز دینے کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی تھی، اُس موسم میں پتنگ سازی کا کاروبار بھی ہوا ہوگیا ہے۔ یعنی پوری طرح سے ختم ہوچکا ہے۔

پتنگ سازی کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں نے اپنے کئی کاریگروں کو کام کرنے سے منع کردیا
پتنگ سازی کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں نے اپنے کئی کاریگروں کو کام کرنے سے منع کردیا

پتنگ سازی کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں نے اپنے کئی کاریگروں کو کام کرنے سے منع کردیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں تیار پتنگوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں۔

ضلع بریلی میں تقریباً آٹھ ہزار سے زائد کاریگر پتنگ سازی صنعت سے وابستہ ہیں جبکہ خاص بات یہ ہے کہ اس صنعت میں خواتین کی شمولیت بھی تقریباً 45 فیصد ہے۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ 90 فیصد کاریگر مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہزاروں تیار پتنگوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں
ہزاروں تیار پتنگوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں

خیال رہے کہ ایک پتنگ تیار ہونے میں کل سات پائیدان پر کام ہوتا ہے۔ مثلاً سب سے پہلا کاریگر کاغذ کاٹ کر رکھتا ہے اور آخری کاریگر دھاگہ لگاکر اسے فائنل ٹچ دیتا ہے۔

اس درمیان کمانی لگانا، چپّی لگانا، ڈیزائن لگانا، ٹِھڈّا لگانا، پیندی لگانے کے بعد خواتین دھاگہ لگاکر پتنگ تیار کرتی ہیں۔

پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا
پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا

واضح رہے کہ 100 پتنگ تیار کرنے کے عوض میں خواتین کو 60 روپے ادا کیے جاتے ہیں جبکہ پورا دن کام کرنے والے نوجوان ڈھائی سو سے تین سو روپیہ تک کی کمائی کرتے ہیں، اور تیار شدہ پتنگ کی قیمت دو روپے سے لیکر 20 روپے تک ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ پتنگ بنانے میں استعمال ہونے والا بانس آسام سے درآمد کیا جاتا ہے تو کاغذ مہاراشٹر کے تھانے سے منگوایا جاتا ہے اور اس کے بعد میدا کو پکا کر پیسٹ تیار کیا جاتا ہے۔

پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار
پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار

اتنا ہی نہیں بلکہ سٹیشنری سے مختلف ڈیزائن کے سٹیکر اور چِٹ خریدکر لائے جاتے ہیں اور اس میں بہت باریک دھاگے کا بھی استعمال ہوتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ سردی اور گرمی کے موسم کی لیے پتنگ علیحدہ علیحدہ طریقہ سے تیار ہوتی ہے، جہاں تک تیار پتنگوں کو برآمد کرنے کی بات ہے۔ اس کی 70 فیصد تک سپلائی راجستھان میں ہوتی ہے۔

پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا
پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا

واضح رہے کہ گھر کی دہلیز کے اندر پردہ نشین خواتین کے ہاتھوں تیار ہونے والی پتنگ سازی صنعت پر مرکزی حکومت نے چھ فیصد جی ایس ٹی بھی لگائی ہے جو اس کاروبار کی حیثیت اور آمدنی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔

پتنگ سازی صنعتکاروں کا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس کاروبار کو جی ایس ٹی کے دائرے سے باہر کیا جائے جو اس کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔

ریاست اترپردیش کے شہر بریلی میں مشہور و معروف پتنگ سازی کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ ہزاروں کاروباری معاشی بحران سے دو چار ہیں۔

پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار

شہر بریلی کو سُرما، فرنیچر، مانجھا، زری زردوزی کے علاوہ پتنگ سازی کے لیے عالمی سطح پر ایک منفرد شناخت حاصل ہے۔

کورونا وائرس کے انفیکشن کے بعد نافذ لاک ڈاون سے یہ کاروبار بالکل بے ترتیب اور تباہ ہوگئی ہے اور جس موسم میں پتنگ کو پرواز دینے کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی تھی، اُس موسم میں پتنگ سازی کا کاروبار بھی ہوا ہوگیا ہے۔ یعنی پوری طرح سے ختم ہوچکا ہے۔

پتنگ سازی کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں نے اپنے کئی کاریگروں کو کام کرنے سے منع کردیا
پتنگ سازی کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں نے اپنے کئی کاریگروں کو کام کرنے سے منع کردیا

پتنگ سازی کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں نے اپنے کئی کاریگروں کو کام کرنے سے منع کردیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں تیار پتنگوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں۔

ضلع بریلی میں تقریباً آٹھ ہزار سے زائد کاریگر پتنگ سازی صنعت سے وابستہ ہیں جبکہ خاص بات یہ ہے کہ اس صنعت میں خواتین کی شمولیت بھی تقریباً 45 فیصد ہے۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ 90 فیصد کاریگر مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہزاروں تیار پتنگوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں
ہزاروں تیار پتنگوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں

خیال رہے کہ ایک پتنگ تیار ہونے میں کل سات پائیدان پر کام ہوتا ہے۔ مثلاً سب سے پہلا کاریگر کاغذ کاٹ کر رکھتا ہے اور آخری کاریگر دھاگہ لگاکر اسے فائنل ٹچ دیتا ہے۔

اس درمیان کمانی لگانا، چپّی لگانا، ڈیزائن لگانا، ٹِھڈّا لگانا، پیندی لگانے کے بعد خواتین دھاگہ لگاکر پتنگ تیار کرتی ہیں۔

پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا
پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا

واضح رہے کہ 100 پتنگ تیار کرنے کے عوض میں خواتین کو 60 روپے ادا کیے جاتے ہیں جبکہ پورا دن کام کرنے والے نوجوان ڈھائی سو سے تین سو روپیہ تک کی کمائی کرتے ہیں، اور تیار شدہ پتنگ کی قیمت دو روپے سے لیکر 20 روپے تک ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ پتنگ بنانے میں استعمال ہونے والا بانس آسام سے درآمد کیا جاتا ہے تو کاغذ مہاراشٹر کے تھانے سے منگوایا جاتا ہے اور اس کے بعد میدا کو پکا کر پیسٹ تیار کیا جاتا ہے۔

پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار
پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار

اتنا ہی نہیں بلکہ سٹیشنری سے مختلف ڈیزائن کے سٹیکر اور چِٹ خریدکر لائے جاتے ہیں اور اس میں بہت باریک دھاگے کا بھی استعمال ہوتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ سردی اور گرمی کے موسم کی لیے پتنگ علیحدہ علیحدہ طریقہ سے تیار ہوتی ہے، جہاں تک تیار پتنگوں کو برآمد کرنے کی بات ہے۔ اس کی 70 فیصد تک سپلائی راجستھان میں ہوتی ہے۔

پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا
پتنگ سازی کا کاروبار بے ہوا ہوگیا

واضح رہے کہ گھر کی دہلیز کے اندر پردہ نشین خواتین کے ہاتھوں تیار ہونے والی پتنگ سازی صنعت پر مرکزی حکومت نے چھ فیصد جی ایس ٹی بھی لگائی ہے جو اس کاروبار کی حیثیت اور آمدنی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔

پتنگ سازی صنعتکاروں کا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس کاروبار کو جی ایس ٹی کے دائرے سے باہر کیا جائے جو اس کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.