روس۔ یوکرین کے درمیان جنگ زوروں پر ہے۔ یوکرین پر روسی فوجی حملوں کی ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آرہی ہیں۔ جس سے وہاں کی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان سب کے علاوہ یوکرین میں حصول تعلیم کے لئے گئے بھارتی طلباء وطالبات کے پھنسے ہونے کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ چند طلباء نے ویڈیوز بناکر بھارتی حکومت سے مدد کی اپیل کی تھی۔ جس کے بعد حکومت نے ان طلباء کی واپسی کے لئے اقدام اٹھائے۔
وہیں ریاست اتر پردیش کے ضلع بریلی کے فتح گنج سے تعلق رکھنے والے آصف انصاری بھی انہیں طلبا میں سے ایک ہیں جو یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے دوران یوکرین میں پھنس گئے تھے۔ تاہم آصف صحیح سلامت اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔ آصف یوکرین سے دہلی پہنچے جہاں سے وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بریلی پہنچے۔
آصف انصاری کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خوفناک منظر کو سوچ کر وہ اب بھی کانپ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو انہوں نے بم شیلٹر میں چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُس بم شیلٹر میں چھ دن انہوں نے چھپ کر بتائے۔ چپس و دیگر چیزیں کھا کر انہوں نے اپنی جان بچائی، پانی ختم ہوگیا تو برتن دھونے کا ’ٹیگ واٹر’’پی کر انہوں نے اپنی جان بچائی تھی۔ Student Asif Ansari Arrives in India from Ukraine
آصف انصاری نے مزید کہا کہ اپنے گھر واپس آنے کے بعد بھی جہازوں کی خوفناک آوازیں ان کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ یوکرین کے تباہ کُن مناظر ابھی بھی گویا ابھی ابھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں،
یوکرین سے ہنگری پہنچنے والے آصف سمیت بھارتی سفارت خانے کے اہلکار دو روز قبل رات میں بوڈاپیسٹ سے بھارت روانہ ہوئے تھے۔ آصف صحیح سلامت اپنے وطن واپس لوٹ آئے۔
آصف انصاری کے اہلِ خانہ نے دہلی ایئر پورٹ پہنچ کر ان کا استقبال کیا۔
آصف انصاری نے کہا کہ دو روز قبل سہ پہر تین بجے ہم یوکرین کی سرحد پر پہنچ گئے تھے۔ یوکرین کے فوجی 100 مقامی شہریوں کا ایک گروپ بناکر سرحد عبور کرکے ہنگری بھیج رہے تھے، جب کہ اُن 100 لوگوں کا ایک گروپ نکلنے کے بعد صرف 5 ہندوستانیوں کو ہنگری کی سرحد عبور کرنے کی اجازت دے رہے تھے۔ ہم آٹھ گھنٹے تک قطار میں کھڑے رہے۔ جس کے بعد رات میں دس بجے یوکرینی فوج نے سرحد عبور کرکے ہنگری کی سرحد میں داخل کیا۔
اُنہوں نے بتایا کہ عالی شان عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کیف میں 1000 سے زائد ہندوستانی طلباء ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ وہاں کی سڑکوں پر گاڑیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہاں پھنسے ہوئے طلباء نکلیں تو آخر کیسے نکلیں گے؟
ایم بی بی ایس کے طالب علم محمد آصف انصاری نے بتایا کہ ان کا چار سال کا کورس مکمل ہو چکا ہے۔ تاہم ابھی بھی دو برس انہیں یوکرین میں رہنا تھا۔ یوکرین کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
یوکرین سے واپس آنے والے طلباء اپنے مستقبل کو لے کر کافی پریشان ہیں۔ وہ اپنی ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ کی تعلیم کیسے مکمل کریں گے؟ یہ کوئی نہیں جانتا کہ یوکرین کے حالات کب معمول کے مطابق ہوں گے؟ یونیورسٹیز کب کُھلیں گی؟ ہم اپنی ڈگری کیسے مکمل کریں گے؟ اس طرح کی تشویش میں مبتلا بریلی کی سیما خان اور اُس کی بہن تسبیحہ اقبال، ابھے پرتاپ سنگھ، آیوش گنگوار، وشیس میسی، دیویانش سکسینا سمیت یوکرین سے واپس بریلی آئے تمام طلباء پریشان ہیں۔
آصف کے مطابق روسی فوج نے 24 فروری کی صبح یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ سینئر کا پیغام ملتے ہی ہم سُپر مارکیٹ کی طرف بھاگے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی سُپر مارکیٹ پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ دو گھنٹے کوشش کرنے کے بعد وہ سُپر مارکیٹ میں داخل ہوئے، لیکن اُنہیں صرف اسنیکس اور چِپس کے پیکٹ ہی مل سکے۔ پانی ختم ہو چکا تھا۔ کسی طرح پانچ لیٹر کی پانی کی بوتل مل گئی۔ ہم کولڈ ڈرنکس اور جوس کے پیکٹ لے کر دوڑتے ہوئے اپنے کمرے تک پہنچے تھے۔
آصف نے حکومت ہند کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہیں ہنگری کے بوڈاپیسٹ سے دہلی لانے میں مدد کی اور وہ بحفاظت اپنے گھر تک پہنچ گئے۔
بوڈاپیسٹ سے لیکر دہلی تک تمام اخراجات حکومت ہند نے برداشت کیے ہیں۔