مہاراشٹر میں مجلس اتحاد المسلمین کا قلعہ کہلانے والے اورنگ آباد شہر میں مجلس کی شکست پر چہ میگوئیاں اور مجلس کی کارکردگی و رہنمائی پر سوال کھڑے ہورہے ہیں اور سیاسی مبصرین اسے مجلس کی سیاسی خودکشی قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ریاستی سطح پر بھی ایم آئی ایم کو دو سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا جبکہ مجلس کو اس سے کئی زیادہ سیٹوں پر کامیابی کی امید تھی۔
مجلس کو مہاراشٹر کی سیاست میں ایک متبادل کے طور پر دیکھا جارہا تھا لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج اتنے حوصلہ افزا نہیں رہے جس کی کئی وجوہات بتائی جارہی ہے۔
سیاسی مبصریں کے مطابق عام انتخابات سے قبل ایم آئی ایم اور ونچت بہوجن اگھاڑی کا اتحاد کافی سرخیوں میں رہا جو امتیاز جلیل کی کامیابی کی صورت میں ظاہر ہوا لیکن اسمبلی انتخابات میں یہ منظر نامہ بدل گیا۔
مبصرین کے مطابق ونچت بہوجن اگھاڑی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں مجلس ریاست کی سیاست کو ایک نئے رخ پر لے جاسکتی تھی جس سے شاید مہاراشٹر کی سیاست کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ بہرکیف ماہرین کا ماننا ہے کہ دلت مسلم اتحاد ایک اچھی پہل تھی لیکن اس سے کنارہ کشی مجلس کے لیے سیاسی خودکشی ثابت ہوئی۔
اورنگ آباد کی تنظیم ورکنگ جرنلسٹ یونین کے سابق صدر ایم آئی ایم کے کارکردگی پر سوال اٹھارہے ہیں۔ عوامی حلقے میں اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ دلت مسلم اتحاد کا ٹوٹنا نہ صرف سیاسی نقصان ہے بلکہ اس کا اثر آپسی بھائی چارہ پر بھی پڑا ہے۔
اتحاد ٹوٹنے سے دونوں طبقات میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں جو ایک دوسرے کے تئیں نرم رخ رکھتے تھے۔ مستقبل میں اس کے اثرات خطرناک ہو سکتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت رہتے ہی اس کی تلافی کی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ونچت اور مجلس کے اعلی رہنما اس سلسلے میں خود پہل کریں۔