اپنے ہاتھوں سے لکڑی کو تراش کر اسے خوبصورت شکل دے کر کرسی، ٹیبل، صوفہ، پلنگ بنانے والوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ اورنگ آباد شہر میں ایسے سینکڑوں کارخانوں میں ہزاروں کاریگر فرنیچر کی صنعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں کارپینٹر سے لیکر پالش کرنے والے کاریگر اور مزدور شامل ہیں۔
چھوٹے کارخانوں میں بھی کم از کم ایک درجن افراد کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ کن حالات میں کام کرتے ہیں، ان کی صحت اور تحفظ کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے، حکومت سے انہیں کیا مراعات حاصل ہیں، یہ جاننے کی کوشش کی تو حیران کن حقائق سامنے آئے۔ غیر منظم سیکٹر میں سرگرم سماجی جہد کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سے انہیں کوئی مراعات حاصل نہیں ہے۔
کورونا وبا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہر طرف مہنگائی کی مار ہے لیکن ان محنت کشوں کو برسوں سے چل رہے طے شدہ معاوضے میں ہی گزارا کرنا ہے۔ انہیں نہ میڈیکل کی سہولت ہے، نہ بچوں کی تعلیم کا انتظام اور نہ ہی کوئی لیبر کارڈ۔ ان محنت کشوں کا سارا انحصار مالک پر ہوتا ہے۔ روزمرہ کی ضروریات تو کسی طرح پوری ہو جاتی ہے لیکن دیگر کاموں کے لیے انہیں قرض کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا۔
غیر منظم شعبے میں اپنی زندگیاں کھپانے والے ان ہنرمندوں کی یہ کڑوی سچائی ہے، جن حالات میں یہ جینے پر مجبور ہیں، اس کا تصور ہی محال ہے لیکن دو وقت کی روٹی کی آس انہیں کچھ اور کرنے کی مہلت نہیں دیتی۔