وادی کشمیر کی سر زمین نے ایسی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جنہیں صدیوں تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں وادی کی زرخیز زمین پر پیدا ہونے والی کئی شخصیات نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے وہیں وادی کے کئی سرکردہ قلم کاروں نے علمی اور ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ اور انفرادی شناخت بنائی ہے، جن میں بزرگ شاعر، ادیب نقاد اور قلم کار غلام نبی آتش کا نام سر فہرست ہے۔
غلام نبی آتش جموں و کشمیر کے قدآوار کشمیری قلم کار، شاعر، محقق، فوک لورسٹ، ترجمہ کار، تجزیہ کار، ماہر ادب اطفال ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی ہیں۔
غلام نبی آتش کی پیدائش 27 اپریل 1949ء میں ضلع اننت ناگ کے نانیل علاقہ میں ہوئی۔دسوی جماعت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سنہ 1966 میں غلام نبی آتش نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت اُستاد تعینات ہوئے۔
تعلیمی شعبہ میں استاد ہونے کے باوجود بھی اپنی پڑھائی کو جاری رکھتے ہوئے غلام نبی آتش نے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی، اور اس دوران غلام نبی آتش کی شعر و شاعری کی قوت مزید بلند ہو گئی۔ای ٹی وی بھارت غلام نبی آتش نے کہا کہ انہیں بچپن سے ہی شعر و شاعری کا بڑا شوق تھا، اور وہ ہمیشہ اشعار گنگناتے رہتے تھے۔ غلام نبی آتش کے مطابق آج تک ان کی نہ صرف کشمیری میں بلکہ مختلف زبانوں میں متعدد کتابیں شائع ہوئی ہے۔آتش کے مطابق ان کی 65 کتابیں منظر عام پر آچکی ہے۔
غلام نبی آتش نے فوک لو میں بہت زیادہ کام کیا ہے۔انہوں نے فوک لور کی تقریباً دس کتابیں لکھی ہے، جو منظر عام پر آچکی ہیں۔ غلام نبی آتش نے بچوں کے لئے کشمیری زبان میں بہت کچھ لکھا ہے۔ بچوں کے لئے دس سے بارہ کتابیں انہوں نے تصنیف دی ہیں، جن میں ان کی مشہور کتاب کینژھا مینژھا، اور نو کینژھا مینژھا سر فہرست ہے۔ بچوں کے ادب کے طور پر لکھی ہوئی ان کتابوں کے لئے غلام نبی آتش کو ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی نے انہیں بال ساہتیہ اعزاز سے نوازا۔بچوں کے ادب کے لئے غلام نبی آتش نے کئی کتابیں ترتیب دی، جبکہ انہوں نے آج تک کئی کلاسکل کتابوں کا کشمیری ترجمہ بھی کیا ہے، جن میں حضرت امیر و کبیر میر سید علی ہمدانی کی کتاب زخیرۃ الملوک کا فارسی سے کشمیری میں ترجمہ اور حضرت سید علی ابو الحسن ندوی کی کتاب سیرت النویا کا بھی کشمیری ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اعلیٰ شخصیات کی کتابوں کا کشمیری ترجمہ سرفرست ہے۔
مزید پڑھیں:محمد زماں آزردہ سے ایک خاص ملاقات
غلام نبی آتش کے مطابق 1979 میں ان کا پہلا شاعری مجموعہ منظر عام پر آگیا، جس کا عنوان تھا "زول امارن ہوند" جس کا انگریزی ترجمہ illumination of longings کہتے ہیں۔ اس کتاب کو 1979 میں ہی اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کی طرف سے بہترین کتاب کے طور پر اعزاز حاصل ہوا۔
غلام نبی آتش کا کہنا ہے کہ انہوں نے جموں کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے تعاون سے کشمیری زبان کو فروغ دینے کے حوالے سے اسکولی بچوں کے لئے نصابی کتابیں تیار کروائی ہیں، آتش نے ان کتابوں کو تیار کرنے میں کلیدی رول نبھایا ہے، جبکہ ان کی طرف سے لکھی گئی کتابوں کو پہلی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے۔غلام نبی آتش نے پرائیویٹ سیکٹر کے لئے بھی نصابی کتابیں تصنیف کی ہیں۔
غلام نبی آتش کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی میں کافی جدو جہد کی ہے اور ہمیشہ دوسروں کو علم کے نور سے آراستہ کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہے۔سنہ 2007 میں غلام نبی آتش محکمہ تعلیم سے سبکدوش ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک شاعر: لکھنؤ کی کم عمر انگریزی شاعرہ فارہ ندیم سے خصوصی گفتگو
غلام نبی آتش کے مطابق ملازمت کے دوران انہوں نے بہت ساری اسکیموں میں کام کیا ہے، جن میں سرو شکشا ابھیان قابل ذکر ہے۔ سرو شکشا ابھیان میں غلام نبی آتش نے زونل رسورس پرسن کے بطور کام کیا ہے، اس دوران انہوں نے ہزاروں استادوں کو ٹریننگ دی ہے، جس کے لئے گورنمنٹ آف جموں اینڈ کشمیر نے انہیں best book teachers award کے اعزاز سے نوازا ہے۔
غلام نبی آتش کو اعلیٰ درجہ کے تقریباً دس سے بارہ ایوارڈ ملے ہیں۔غلام نبی آتش کی شعر وشاعری کے شوق کو پورا کرنے میں ان کے استادوں کا کلیدی رول رہا ہے، جنہیں وہ اپنا کلام دکھاتے تھے، اور وقت کے ساتھ ساتھ آتش کے اندر چھپے اس ہنر کو مزید فروغ ملتا رہا۔انہوں نے ادب کی جانب راغب ہونے والے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ادبی دنیا میں اپنے آپکو ثابت کرنے کے لئے دوسروں کے کلام سے اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تاکہ ادبی دنیا میں وہ اپنا لوہا منوا سکے۔