ETV Bharat / city

All Party Meeting: سماجی تجزیہ کاروں کا ردعمل

وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کلُ جماعتی مٹینگ ہونے کے بعد سیاسی و سماجی تجزیہ کاروں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ 'مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، لہذا بات چیت صرف 370 اور 35 اے جیسے معاملات تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نیوکلیائی جنگ (Nuclear war) ہونے کا خدشہ ہے۔ لہذا اس کے مستقل حل کے لیے ماضی کے معاملات کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے'۔

فوٹو
فوٹو
author img

By

Published : Jun 25, 2021, 8:49 PM IST

گذشتہ روز یعنی 24 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کُل جماعتی میٹنگ کے اختتام کے بعد مختلف تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر سیاسی، سماجی اور تجزیہ نگاروں نے مرکز کے اس قدم کا خیر مقدم کیا ہےـ
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقامی افراد نے کہا کہ وہ مرکزی حکومت کے اس قدم کی سراہنا کرتے ہیں۔

کل جماعتی میٹنگ سماجی تجزیہ کاروں کا ردعمل

انہوں نے کہا کہ بات چیت واحد ایک راستہ ہے جو تمام تلخیوں اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کا ایک مفید ذریعہ ہے۔

ان کے مطابق بات چیت کے دوران تمام فریقین کو اپنی اپنی رائے رکھنے کا موقعہ ملتا ہے اسلئے یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنا چاہئے،تاکہ مسائل کو حل کرنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔

ادھر تجزیہ کاروں نے میٹنگ کے حوالے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد یہاں کی سیاسی پارٹیوں اور مرکز کے درمیان خلا پیدا ہو گیا ہے۔

لہذا کُل جماعتی میٹنگ کا انعقاد جموں و کشمیر میں جمہوری عمل کو بحال کرنے، جموں کشمیر اور مرکز کے درمیان دوریوں کو کم کرنے ،نفرتوں کو مٹانے اور مسائل کو پُرامن طریقہ سے حل کرنے کا ایک اہم قدم ہے۔

ان کے مطابق یہ ایک اچھی بات ہے کہ مشروط بنیاد پر میٹنگ نہیں ہوئی، تاہم امید ظاہر کی جارہی تھی کہ میٹنگ سے مثبت نتائج سامنے آجائیں گے..تاہم ایسا نہیں ہوا ۔


یہ بھی پڑھیں:

'دہلی اگریمینٹ-1952 بحال ہونے سے ہی جموں وکشمیر میں امن قائم ہو گا'


تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ یکطرفہ فیصلے یہاں سے نہیں بلکہ مرکز کی جانب لئے گئے ہیں۔ لہذا مرکز کی جانب سے یہاں کے سوالات اور رائے کا مثبت ردعمل ملنا چاہئے،تاکہ مستقبل میں بات چیت مثبت سمت میں آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ،لہذا بات چیت صرف 370 اور 35 اے جیسے معاملات تک محدود نہیں رہنی چاہیے،یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نیوکلیائی جنگ (Nuclear war) ہونے کا خدشہ ہے۔لہذا اس کے مستقل حل کے لئے ماضی کے معاملات کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔

آپ کو بتادیں وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے جموں و کشمیر کے 14 مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو 24 جون کو دہلی مدعو کیا گیا تھا جن میں چار سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہوئے ۔ اس اجلاس کا ایجنڈا واضح نہیں ہے لیکن جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کئے جانے کے اقدام کے دو سال بعد یہ اس خطے کیلئے سب سے بڑی سیاسی پیش رفت ہے۔

گذشتہ روز یعنی 24 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کُل جماعتی میٹنگ کے اختتام کے بعد مختلف تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر سیاسی، سماجی اور تجزیہ نگاروں نے مرکز کے اس قدم کا خیر مقدم کیا ہےـ
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقامی افراد نے کہا کہ وہ مرکزی حکومت کے اس قدم کی سراہنا کرتے ہیں۔

کل جماعتی میٹنگ سماجی تجزیہ کاروں کا ردعمل

انہوں نے کہا کہ بات چیت واحد ایک راستہ ہے جو تمام تلخیوں اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کا ایک مفید ذریعہ ہے۔

ان کے مطابق بات چیت کے دوران تمام فریقین کو اپنی اپنی رائے رکھنے کا موقعہ ملتا ہے اسلئے یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنا چاہئے،تاکہ مسائل کو حل کرنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔

ادھر تجزیہ کاروں نے میٹنگ کے حوالے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد یہاں کی سیاسی پارٹیوں اور مرکز کے درمیان خلا پیدا ہو گیا ہے۔

لہذا کُل جماعتی میٹنگ کا انعقاد جموں و کشمیر میں جمہوری عمل کو بحال کرنے، جموں کشمیر اور مرکز کے درمیان دوریوں کو کم کرنے ،نفرتوں کو مٹانے اور مسائل کو پُرامن طریقہ سے حل کرنے کا ایک اہم قدم ہے۔

ان کے مطابق یہ ایک اچھی بات ہے کہ مشروط بنیاد پر میٹنگ نہیں ہوئی، تاہم امید ظاہر کی جارہی تھی کہ میٹنگ سے مثبت نتائج سامنے آجائیں گے..تاہم ایسا نہیں ہوا ۔


یہ بھی پڑھیں:

'دہلی اگریمینٹ-1952 بحال ہونے سے ہی جموں وکشمیر میں امن قائم ہو گا'


تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ یکطرفہ فیصلے یہاں سے نہیں بلکہ مرکز کی جانب لئے گئے ہیں۔ لہذا مرکز کی جانب سے یہاں کے سوالات اور رائے کا مثبت ردعمل ملنا چاہئے،تاکہ مستقبل میں بات چیت مثبت سمت میں آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ،لہذا بات چیت صرف 370 اور 35 اے جیسے معاملات تک محدود نہیں رہنی چاہیے،یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نیوکلیائی جنگ (Nuclear war) ہونے کا خدشہ ہے۔لہذا اس کے مستقل حل کے لئے ماضی کے معاملات کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔

آپ کو بتادیں وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے جموں و کشمیر کے 14 مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو 24 جون کو دہلی مدعو کیا گیا تھا جن میں چار سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہوئے ۔ اس اجلاس کا ایجنڈا واضح نہیں ہے لیکن جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کئے جانے کے اقدام کے دو سال بعد یہ اس خطے کیلئے سب سے بڑی سیاسی پیش رفت ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.