پلاسٹک پوری دنیا کے لیے ایک آفت Plastics a Disaster For the Whole World بنتی جا رہی ہے۔ قدرتی حسن سے مزین وادی کشمیر بھی اب پلاسٹک اور پالیتھین کی زد میں آچکا ہے۔ یہاں کے صحت افزا مقامات بھی پلاسٹک اور پالتھین سے پاک نہیں رہے۔ پلاسٹک اور پالتھین کے بڑھتے رجحان سے دنیا میں آلودگی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس 5 سو بلین پلاسٹک بیگس تیار کیے جاتے ہیں۔ پلاسٹک اور پالتھین کی زندگی ایک سو سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے، ان کو جلانے سے زہریلی گیسز فضا میں شامل ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح آبی وسائل میں ہر برس 8 ملین ٹن پلاسٹک پا یا جاتا ہے ۔انسان کے اختیار کردہ مصنوعی ذرائع وسائل نے ماحول کے حسن کو نہ صرف غارت کرکے رکھ دیا ہے، بلکہ اس سے کئی طرح کی آلودگیوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔
جموں کشمیر میں آبی ذخائر کی آلودگی، جنگلوں و مٹی کے کٹاؤ سے موسمی تغیر و تبدیلی کا باعث بن رہی ہے۔جنت کے نام سے موسوم وادی کشمیر بھی ماحولیاتی آلودگی سے پاک نہیں رہی۔پلاسٹک و پالتھین کے عام استعمال، آبی ذخائر پر ناجائز قبضے اور جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائی کی وجہ سے یہاں کا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔
صحت افزا مقامات پر گندگی و غلاظت کے ڈھیر جمع کرنے سے ماحولیات پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اگرچہ سنہ 2008 میں ریاستی حکومت نے یہاں پالیتھین کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی لیکن وہ پابندی صرف اعلانات تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔
polythene abuse unabated in kashmir despite hc ban
جبکہ زمینی سطح پر عمل درآمد نا کے برابر ہے۔ شہر و دیہات میں دکانداروں، دیگر کاروباری اداروں اور شادی کی تقریبات میں بے تحاشہ پالیتھین اور پلاسٹک بیگس کا کھلم کھلا استعمال ہو رہا ہے۔
وہیں شہروں اور قصبوں میں سیوریج اور کوڑا کرکٹ سڑکوں اور دریاؤں کے حوالےکیا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف عام عوام بلکہ میونسپل حکام کی جانب سے بھی جاری ہے، جو مستقبل کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ماہر ماحولیات نے پلاسٹک اور پالتھین کے بڑھتے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہاں کی زرخیز زمین بنجر میں تبدیل ہوجائے گی اور یہاں کے آبی ذخائر زہریلے بن جائیں گے۔
لہذا حکومت کو اس کے روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیے اور سماج کے ہر ایک فرد کو ارد گرد کے ماحول کو کثافت سے پاک کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہے۔ کیونکہ ماحول کو صا ف و شفاف رکھنا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
سرکاری اداروں، صعنت کاروں، دکانداروں اور سماج کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانی صحت اور ماحولیات کے لیے انتہائی نقصان دہ پلاسٹک کے بجائے پائیدار متبادل ذرائع کا استعمال کریں۔