وادی کشمیر میں سیب کی سالانہ پیداواری صلاحیت بیس لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ اس صنعت سے یہاں کے 33 لاکھ افراد منسلک ہیں۔ان میں کاشتکاروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو بیوپاروں یا کمیشن ایجنٹس کے قرضہ کے محتاج ہوتے ہیں۔
یہ کسان ہر سال بیوپاریوں سے پیشگی رقم یعنی ایڈوانس رقم لیتے ہیں۔ اُسی رقم سے کاشتکاری کے لیے درکار، کیمیائی کھاد، جراثیم کش ادویات و دیگر ضروری سازو سامان خرید کر اپنے باغات و کھیت کی آبیاری کرتے ہیں۔ قرضہ پر اٹھائی گئی رقم کو نہ صرف کاشتکاری کے لئے خرچ کیا جاتا ہے بلکہ اس سے سال بھر ان کے گھر کا چولہا بھی جلتا ہے۔
تاہم کورونا وائرس کے تناظر میں کئے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹیں حائل ہو گئی ہیں۔ کسانوں کے مطابق موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے میوہ بیوپاروں و کمیشن ایجنٹس انہیں پیشگی رقم فراہم کرنے سے فی الحال انکار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'بیوپاری مارچ کے مہینے میں ہر سال پیشگی رقم ان کے کھاتے میں جمع کرتے تھے. تاہم رقم کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں اپنے باغات کے لئے ادویات، کھاد و دیگر ضروری سامان خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔'
سیب کے باغات کے لئے مارچ اور اپریل کا مہینہ کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس سیزن میں سیب، آڈو، ناشپاتی و دیگر کئی اقسام کے میوہ درختوں کے شگوفے نکل آتے ہیں۔ ان دو ماہ کے اندر کئ بار جراثیم و پھپھوند کُش ادویات کا چھڑکاؤ اور کئ طرح کی کیمیائی کھاد کا استعمال کافی لازمی ہوتا ہے..
تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹیں حائل ہونے کے سبب کسان مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ جس سے نہ صرف کسانوں کو روزی روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے بلکہ اس سے زراعت کے شعبہ پر براہ راست اثر پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
وہیں لاک ڈاون کے سبب کسان بازاروں سے زمینداری کے لئے درکار ضروری اشیاء خرید نہیں پا رہے ہیں۔ نتیجتاً اس سے کھیتی سے جڑی تمام سرگرمیوں پر خلل پڑرہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وادی میں پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے وادی سے سپلائی کی جانے والی سیب کی بر آمدات میں 1.35لاکھ میٹرک ٹن کی کمی واقع ہوئی تھی۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ۔آج کے حالات میں حکومت کا تعاون ناگزیر بن گیا ہے۔ اور یہ عمل سماج کو خطرناک وبا سے بچانے کے لئے لازم ملزوم ہے۔ تاہم حکومت کو اس درمیان کسانوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے جس کے تحت سرکاری حکمنامے کا وقار برقرار رہے اور غریب کسانوں کا چراغ بھی روشن رہے۔'