اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کے فیصلے جس میں وزیراعظم نریندر مودی کو 22 دسمبر میں ہونے والی صد سالہ تقریب میں مہمان خصوصی بنائے جانے پر اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق سیکریٹری کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق سیکرٹری حذیفہ عامر رشادی نے کہا کہ وزیراعظم کے اے ایم یو میں خطاب کے متعلق میڈیا میں بتایا جا رہا ہے کہ اے ایم یو کے طلبہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اس معاملے میں وی سی سے سخت ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مخالفت اور ناراضگی کس چیز کو لے کر ہے؟ کیا اس چیز کو لے کر رہے کہ گزشتہ پانچ، چھہ سالوں میں یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا، وہاں کے طلبا کو نشانہ بنایا گیا، ان تمام موضوعات کے باعث یہ ناراضگی ہے اور وہ صحیح بھی ہے کیونکہ آپ دیکھ سکتے ہیں وہاں کے طلبہ پہ کس طریقے سے آئے دن مقدمہ درج کیے جارہے ہیں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ کو نشانہ بنایا گیا اور ان پر مقدمہ درج کیے گئے جس کو لے کر ناراضگی ہے۔
حذیفہ عامر رشادی نے مزید کہا کہ وی سی کے ترجمان کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ یہ اقلیتوں کے لئے مثبت قدم ہے۔ اگر اس بات کو قبول کر لیا جائے تو کیا وزیر اعطم یونیورسٹی میں اپنے خطاب سے قبل یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف کورٹ میں حکومت کے ذریعہ داخل ایفیڈیوٹ کو واپس لیں گے اور یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جس طریقے سے گزشتہ برسوں میں یونیورسٹی کے فنڈ میں کمی کی گئی ہے آنے سے پہلے وزیراعظم ان سب فنڈ کو بحال کریں گے؟ تیسرا جو تمام مقدمہ طلبہ کے خلاف درج کیے گئے کیا وہ سبھی واپس لئے جائیں گے؟ اور چوتھا ان تمام لوگوں کے خلاف کیا ایکشن لیا جائے گا جنہوں نے یونیورسٹی کو دہشت گرد کا اڈا بولا اور طلبہ کو زندہ دفنانے کی بات کہی تھی؟
عامر رشادی نے کہا کہ اگر تمام باتیں وزیر اعظم کے خطاب کرنے سے قبل ہوتی ہیں تو مانا جائے گا کہ یہ مثبت قدم ہے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ یہ بین الاقوامی سطح پر وزیر اعظم کا اقلیتیوں کے متعلق اپنی تصویر کو صاف کرنے کا ایک سیاسی اسٹنڈ ہے۔