اے ایم یو میں یونانی طب کی تدریس و تربیت اور اجمل خان طیبہ کالج (اے کے ٹی سی) میں استعمال ہونے والے مختلف معالجاتی طریقوں کی ستائش کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سبھی زیرالتوا امور میں ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔
سمپوزیم کی قرار داد پیش کرتے ہوئے چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی پروفیسر ایف ایس شیرانی (ڈین فیکلٹی آف یونانی میڈیسن) نے کہا کہ یونانی طب کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جارہا ہے اور وہ مناسب نمائندگی سے محروم ہے انہوں نے استقبالیہ خطبہ بھی پیش کیا۔
آرگنائزیشن سکریٹری پروفیسر شگفتہ علیم (ممبر ایڈوائزری بورڈ، وزارت آیوش) نے آیوش ایڈوائزری بورڈ میں مساوی سلوک کے لیے اس مسئلہ کو بلند آواز میں اٹھانے کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے دیگر اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ یونانی طب کے کاز کی خاطر مختلف پلیٹ فارمز پر اسی طرح کی قرارداد پیش کریں۔
دیگر مقررین میں پروفیسر نعیم اے خان، پروفیسر مشتاق احمد اور ڈاکٹر ایم خالد صدیقی نے نیشنل کمیشن آف انڈین میڈیسن (این سی آئی ایم) میں یونانی ماہرین کے عہدوں پر بات کی۔
انہوں نے ملک بھر میں یونانی پریکٹیشنرز کی بہتر نمائندگی، وسائل کے مناسب استعمال کے لیے مساوی سلوک، پالیسیوں اور رہنما خطوط کی بہتر تشکیل، این سی آئی ایم میں یونانی طب کے لیے آزاد بورڈ، یونانی ڈاکٹرز کو سرجری کرنے کی اجازت دینے، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن کے قیام، اے کے ٹی سی، اے ایم یو کو تعلیم اور تربیت کی سہولیات کی انفرادیت کی بنیاد پر ایک اعلی قومی انسٹی ٹیوٹ کا درجہ فراہم کرنے، ہر ریاست میں یونانی میڈیسن کے آزاد ڈائریکٹریٹ کے قیام، تمام ریاستوں کے دارالحکومت اور شہروں میں سی جی ایچ ایس ڈسپنسری قائم کرنے اور یونانی اداروں بشمول وزارتی سکریٹریٹ، سی جی ایچ ایس ڈسپنسری اور سی سی آر یو ایم میں خالی آسامیوں کو پر کرنے پر زور دیا۔
اس کے ساتھ ہی نیشنل ہیلتھ کمیشن این ایم اور دیگر صحت اسکیموں میں یونانی ڈاکٹرز کو شامل کرنے کی وکالت کی گئی۔
کانفرنس کی قرار داد میں ڈی جی کے عہدے پر داخلی امیدواروں کو موقع فراہم کرنے کے لیے بھرتی کے قواعد میں مناسب ترمیم کی ضرورت ظاہر کی گئی۔
پروفیسر شگفتہ علیم نے رسم شکریہ ادا کی۔ ڈاکٹر محمد انس سیمپوزیم کے کنوینر اور ڈاکٹر محمد محسن پروگرام کوآرڈینیٹر تھے۔