عالمی وبا کرونا کے سبب ملک کے سبھی تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا تھا، تاہم کرونا کی دوسری لہر کے بعد اب حالات معمول پر آگئے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں کو بھی کھول دیا جارہا ہے۔ ملک میں پرائویٹ و سرکاری اسکولز اور کالجز کو کچھ پابندیوں کے ساتھ کھول دیا گیا ہے۔ اب یونیورسٹیز کو کھولا جانا باقی ہے۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو 15 دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پیش آئے واقعات کے بعد بند کردیا گیا تھا۔ تقریبا دو سال سے بند یونیورسٹی کو نہ کھولنے پر طلبا احتجاج کررہے ہیں۔ ایک ہفتے قبل طلبا نے احتجاجی مظاہرہ کے بعد وائس چانسلر کو ایک میمورنڈم دیا تھا جس میں فوری طور پر یونیورسٹی کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور مطالبہ قبول نہ کرنے کی صورت میں احتجاج دھرنا دینے کی دھکی دی گئی تھی۔
یونیورسٹی طلبا نے آج ایک اور احتجاجی مظاہرہ کیا اور انتظامیہ کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر فوری طور پر یونیورسٹی کو دوبارہ نہ کھولا گیا تو بڑے پیمانہ پر دھرنا منظم کیا جائے گا‘۔ مظاہرے کے دوران طلبا نے کہا کہ یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے ان کا کافی نقصان ہورہا ہے، انہیں لائبریری، سیمینار، لیب و دیگر سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے۔ اے ایم یو انتطامیہ کو طلبا کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ طلبا نے الزام عائد کیا کہ وائس چانسلر حکومت کے دباؤ کے تحت یونیورسٹی کو بند رکھے ہوئے ہیں۔
طلبا رہنما عارف تیاگی نے کہا کہ ’اگر اندرون ایک ہفتہ ہمارے مطالبات کو قبول نہیں کیا جاتا ہے تو باب سید پر دھرنا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے طلبا کا کافی نقصان ہورہا ہے۔
یہ بھی پرھیں:
علیگڑھ: ماہنامہ تہذیب الاخلاق کا خصوصی شمارہ سرسید نمبر کا رسم اجراء
اے ایم یو کے ڈپٹی پراکٹر سید علی نواز زیدی نے کہا آج یونیورسٹی میں طلبا کی جانب سے بائیک ریلی نکالی گئی اور احتجاج کیا گیا۔ اس دوران باب سید کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم نے ان کی کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی حال میں ماحول کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔