مذہب اسلام میں مہر کی ادائیگی کے تعلق سے گجرات کے علماء کرام نے بیداری پیدا کرنے کی پہل شروع کی ہے، اس ضمن میں احمدآباد کی شاہی جامع مسجد کے امام مفتی محمد شبیر احمد صدیقی نے کہا کہ اگر شوہر بیوی کے درمیان کوئی تنازعہ جھگڑا یا جدائی کے اسباب پیدا ہوتے ہیں تو لڑکی عدالت سے رجوع کرکے اپنا نان و نفقہ کا دعویٰ کرتی ہے اور ساتھ لاکھوں روپے کا بھی دعویٰ کرتی ہے۔
امام محمد شبیر نے کہا کہ لڑکی کو عدالت میں جانے سے روکنے کے لیے چاہیے کہ آپ مہر اس قدر رکھو کو جو نبی کریم کے زمانے میں عام طور سے رکھی جاتی تھی، اس لیے ہمیں چاہئے کہ مہر کی رقم پیسوں کے بجائے سونے یا چاندی کی شکل میں رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ حضرت محمدﷺ کی ازواج اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر 500 درہم یا 131 تولے 4 ماشے چاندی یا 1550 گرام چاندی کے برابر مقرر ہوا تھا، اسی کو مہر فاطمی بھی کہا جاتا ہے، فقہ حنفی کے مطابق ان کے یہاں مہر کی مقدار کم از کم 10 درہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شریعت نے ہر لڑکی کو مہر کا اختیار دیا ہے، آج کے زمانے میں لوگوں کو بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ نکاح کے وقت میں لڑکی کو مہر کی رقم زیادہ سے زیادہ دی جائے اور خاص طور سے مہر سونے چاندی کی شکل میں دیا جائے۔
واضح رہے کہ مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک معجل اور دوسرا مؤجل، معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد واجب ہو جاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل ہوتا ہے،
جب کہ مؤجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص میعاد (وقت) مقرر کی گئی ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو، اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن اگر مہر مؤجل کے لیے نہ تو کوئی خاص میعاد رکھی گئی ہو یا نہ ہی بیوی کے مطالبہ کو میعاد بنایا گیا ہو تو پھر اس صورت میں اس کی ادائیگی طلاق یا موت کی وجہ سے فرقت کے وقت لازم ہوگی۔
مہر کا معجل یا مؤجل مقرر کرنا زوجین کی آپس کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے، چاہے سارا مہر معجل مقرر کیا جائے، چاہے سارا کا سارا مؤجل مقرر کیا جائے اور چاہے تو مہر کا کچھ حصہ معجل طے کیا جائے اور کچھ حصہ مؤجل طے کیا جائے۔
یعنی مثلاً ایک لاکھ مہر مقرر کیا جائے اور طے یہ ہو کہ اس میں سے پچاس ہزار روپے کی ادائیگی معجل (فوری لازم) ہوگی اور باقی پچاس ہزار روپے کی ادائیگی مؤجل (تأخیر سے لازم) ہوگی، یہ تمام صورتیں درست ہیں۔