حیدرآباد: عموماً ہم گھر، گاڑی خریدنے یا مالی بحران پر قابو پانے کے لیے قرضہ لیتے ہیں۔ یا پھر قرض کے ان قسام ہوم لون، کار لون، پرسنل لون، پراپرٹی رہن رکھ کر لون، تعلیمی اخراجات کیلئے قرضہ، کریڈٹ کارڈ لون، وغیرہ لیتے ہیں۔ تاہم ہمیں قرض لینے سے پہلے مالی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو یقینی طور پر ہم قرض سے فائدہ اٹھائے بغیر اضافی رقومات ادا کریں گے۔ How to Manage Loans
آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) کے ریپو ریٹ میں اضافے کے بعد ہوم لون کی شرح سود ایک بار پھر بڑھنے لگی ہے۔ بہت سے بینکوں نے پہلے ہی اپنے ریپو پر مبنی قرض کی شرحوں میں ترمیم کی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے قرضہ جات میں ادائیگی کی مدت میں تبدیلی آئی ہے۔ 20 برس کی مدت کے لیے، لیے گئے قرض کو طے کرنے میں اب 27-28 برس لگ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرض لینے والے اپنے ہوم لون کو جلد از جلد ادا کرنے کی تیاری میں ہیں۔ دوسری جانب جن کے پاس ہوم لون، کار اور نجی یا پرسنل لون ہے وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ آخر وہ ان میں سے کسے پہلے ادا کریں۔
ماہرین ہمیشہ زیادہ سود والے قرض کو پہلے ادا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پرسنل لون پر سود تقریباً 16 فیصد ہے۔ اگر آپ کریڈٹ کارڈ پر قرض لیتے ہیں تو بھی صورتحال وہی ہے۔ جب کہ ہوم لون پر سود فی الحال 8.75 سے 9 فیصد ہے۔
قرض دہندگان کو چاہیئے کہ وہ چھوٹی ادائیگیاں کرنے کے لیے ایک منصوبہ اپنائیں تاکہ نجی، گاڑی اور کریڈٹ کارڈ کے قرضوں کو جلد از جلد ادا کیا جا سکے۔ بہت سے لوگوں نے سونے پر قرض لیا ہوگا۔ اس قرض کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں۔
ہوم لون کے ساتھ بہت سے فوائد آتے ہیں، چونکہ یہ ایک طویل مدتی قرض ہے، اس لیے شرح سود کا وقتاً فوقتاً بڑھنا اور گرنا فطری ہے۔ اس قرض پر ادا کی جانے والی سود کی رقم میں 2 لاکھ روپے تک انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ جن لوگوں نے اسوقت ہوم لون لیا تھا، جب شرح سود 7 فیصد سے کم تھی، انکی ادائیگی کی مدت میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مستقبل میں شرح سود کم ہوتی ہے تو یہ مدت اس حد تک کم ہو جائے گی۔
یہ بہت ضروری ہے کہ جو لوگ ابھی ریٹائرمنٹ سے 4-5 برس دور ہیں وہ ایک بار اپنے ہوم لون کا جائزہ لیں۔ چیک کریں کہ رقم ادا کرنے میں کتنا وقت درکار ہے۔ چونکہ اس عمر کے لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اگر وہ پوری رقم ایک ساتھ ادا کرتے ہیں تو ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہوگا۔ انہیں ان عوامل پر غور کرنے کے بعد ہی پیشگی ادائیگی کی جانی چاہیے۔
مزید پڑھیں: