جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں، دونوں تنظیموں کے عہدیداروں نے کامرس اور صنعت کے وزیر پیوش گوئل سے سستی قیمت کے جوتوں اور چپلوں کو بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈز (بی آئی ایس) کے معیارات سے مستثنیٰ قرار دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ یہ معیار روپے سے اوپر لاگو ہے۔
سی اےٹی کے چیئرمین بی بھارتیہ اور قومی جنرل سکریٹری پروین کھنڈیلوال اور آئی اے ایف کے قومی صدر روندر گوئل نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک کی تقریباً 85 فیصد آبادی 1000 روپے سے کم قیمت کے جوتے اور چپل استعمال کرتی ہے اس لیے جی ایس ٹی ٹیکس کی شرح میں کوئی بھی اضافہ اس سے 85 فیصد لوگوں پر براہ راست اثر پڑے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں جوتوں کی 90 فیصد پیداوار زیادہ تر چھوٹے اور غریب لوگ یا گھریلو صنعتوں اور کاٹیج انڈسٹریز میں کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بھارت میں جوتے کی تیاری کے ایک بڑے حصے پربی آئی ایس کے معیارات کی تعمیل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ CAIT, IFA Urge Government to Roll back Hike in GST
مسٹر کھنڈیلوال نے کہا کہ جی ایس ٹی ٹیکس سلیب میں 5 فیصد کا اضافہ بھارت کے جوتے کی صنعت اور تجارت کے لیے ناگوار ثابت ہوگا۔ 7 فیصد کا اس طرح کا اضافہ ملک میں جوتے استعمال کرنے والے 85 فیصد عام لوگوں پر براہ راست اثر ڈالے گا جو غریب طبقے کو آسان ذریعہ معاش فراہم کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے عزم کے خلاف ہوگا۔ جوتے کے چھوٹے تاجروں کی ایک بڑی تعداد نے کمپوزیشن اسکیم کا انتخاب کیا ہے، اس لیے وہ ان پٹ ٹیکس کریڈٹ حاصل نہیں کر سکیں گے اور اس طرح جوتے کی قیمت میں مزید 7 فیصدٹیکس شامل کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چپلوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کا مقصد الٹا ٹیکس ڈھانچے کو ختم کرنا تھا اور مذکورہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 15 فیصد بڑے مینوفیکچررز اور امپورٹڈ برانڈز اس سے مستفید ہوں گے۔ جبکہ باقی 85 فیصد جوتے سے متعلق تاجر اور صنعت کار پر اضافی بوجھ ثابت ہوں گے۔ لہذا،’کیٹ‘ اور’آئی اے ایف‘ نے زور دیا ہے کہ جوتوں پر جی ایس ٹی ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے زیادہ ہ نہیں ہونی چاہے۔
مزید پڑھیں:
یو این آئی