ملک کے لوگوں میں غذائی اجناس میں دالوں کی ضرورت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔ دو دہائی قبل ملک بھر میں قریب2کروڑ20لاکھ ہیکٹر اراضی پر ایک کروڑ40لاکھ ٹن دالوں کی پیداوار ہوتی تھی، جو غذائیت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی تھی۔تاہم سال 2010کے بعد صورتحال میں تبدیلی رونما ہوئی۔
ملک بھر میں دالوں کی طلب میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر2کروڑ60لاکھ ہیکٹر اراضی پر ایک کروڑ60لاکھ ٹن دالوں کی پیدوار ہوتی ہے، تاہم یہ پیدوار ہماری طلب میں اضافے کے نتیجے میں کافی نہیں ہو پارہی ہے۔سال2015تک گھریلوں سطح پر دالوں کی ڈیمانڈ میں تواتر سے2کروڑ20لاکھ ٹن تک پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں برآمدات میں50لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ سال2015 تک تور کے دال کی قیمت 180روپے فی کلو بازاروں میں مل رہی تھی۔اس صورتحال میں 56 لاکھ ٹن دال کو برآمد کرنا پڑا۔اس کے آئندہ برس بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملی، جس کے نتیجے میں 63 لاکھ ٹن دال کو برآمد کرنے کی نوبت آن پڑی۔
درآمدات میں اضافے کے نتیجے میں گھریلوں سطح پر دالوں کی قیمتوں میں اعتدال پیدا ہوا۔اس دوران تاہم بازاروں میں مسلسل سے دالوں کی قیمتوں میں گرواٹ آنا شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں کسانوں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔اس صورتحال کی وجہ سے انڈین فوڑ کارپوریشن نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کافی مقدار میں کسانوں سے دالوں کی خریداری کی اور سال کے او آخر تک 20 لاکھ ٹن کا ذخیرہ ان کے پاس دستیاب تھا۔
حکومت اور کسانوں کو مالییاتی طور پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔کم قیمتوں کے نتیجے میں عام صارفین کو راحت ملی۔ ملک میں اس صورتحال کے نتیجے میں دالوں کی پیداوار میں اراضی کا اضافہ کیا گیا،اور اس کو3کرور ہیکٹر تک پہنچایا گیا۔امسال سمندر کے اس پار سے دالوں کی برآمدات بھی 10لاکھ ٹن سے کم ہوگی۔کچھ حد تک قیمتیں اعتدال پر رہیں، تاہم یہ صورتحال کب تک رہیں گی وہ ابھی غیر یقینی عمل ہے۔
برآمدات پر توجہ مرکوز
دالوں کی پیدوار عام طور پر بارشوں پر منحصر رہتی ہے، اس کی پیداوار کو یقینی بنانے میں اضافہ کرنا اور کسانوں کو اچھی قیمتوں کے حصول میں تعاون دینا ایک چلینج ہے۔ ملک میں کچھ وقت سے دالوں کے کچھ نئے اقسام تیار کرنے اور ان پیدوار میں اضافے کی کوششیں جاری ہیں۔
کانپور نشین دالوں کی تحقیق کے ادارے نے اس پر کئی تحقیقیں کی ہیں۔سال2030تک ملک کی آبادی ممکنہ طور پر150کروڑ کی آبادی کے ہندسے کو بھی عبور کریں گی اور اس وقت دالوں کی طلب 3کرور30لاکھ ٹن تک پہنچنے کا احتمال ہے۔فی الوقت835کلو فی ہیکٹر کی شرح سے دالوں کی پیدوار ہو رہی ہے۔
مستقبل کی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے فی ہیکٹر30 فیصد شرح کے حساب سے اضافہ لازمی بن چکا ہے ۔بہترین کاوشوں کے باوجود گزشتہ ایک دہائی سے دالوں کی پیدوار میں20 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔درآمدات کو یقینی بنانے، کسانوں کو پیدوار کیلئے معقول قیمتوں کی فراہمی میں تعاون کرنا لازمی ہے، نیز اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ قیمتیں عام آدامی کی قوت خریداری کے باہر تو نہیں ہے۔
دالیں مجمومی طور پر بارشوں پر ہی منحصر رہتی ہے، قلیل مدتی اقسام کا انتخاب بھی سود مند ثابت ہوگا ۔اس معاملے میں گہرائی سے نیز تحقیق کرنے کی بھی ضرورت ہے۔دوسری طرف فصلوں کو جراثیم و کیڑوں سے کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تور دال اور کپاس کو مخصوص اقسام کے کیڑے نقصان پہنچاتے ہیں۔ کسان اندھادھند طریقے سے جراثیم کش ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جس کے باوجود یہ کیڑے قریب 50فیصد فصل کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
دالوں کے مضبوط اقسام کو کچھ حد تک مزید تحقیقات کے بعد قائم کی جاسکتی ہے، تاہم اس سمت میں مزید کاوشوں کی اشد ضرورت ہے۔ آبپاشی کی کمی کے نتیجے میں مزید 10فیصد فصل کا نقصان ہوتا ہے، تاہم ڈرپ آبپاشی اور مائکروں آبپاشی کے طریقہ کار سے پانی کا استعمال کرکے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔حکومت کو اس میں کافی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
دالیں ان فصلوں میں شامل ہیں، جن کو کم از کم پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ان فصلوں کی جڑیں زمین میں نیچے تک پہنچ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کی پیداوار کم پانی کے باوجود ہوتی ہے۔جڑیں زمین میں نائیڈروجن میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ یہ فصلیں ماحول کے تحفظ کیلئے کافی فائدہ مند ہوتی ہیں جس کیلئے ان کی پیدوار بڑے پیمانے پر ہونی چاہے۔
درمیانہ دار اور مزید فوائد
بازاروں میں دال کی پیدوار کی خریداری کیلئے کسانوں کو فراہم کی جانی والی قیمتوں اور عام لوگوں کو فراہم کی جانی والی قیمتوں میں کافی فرق ہے۔خرید و فروخت کی قیمتوں میں یہ خلاء درمیانہ دار پیدا کرتے ہیں اور انہیں اچھا خاصا منافع ہوتا ہے۔
ہمیں کسانوں کو براہ راست بازاروں سے رابطہ بنانے کیلئے نئے راستوں کی تلاش کرنا ضروری ہے، تاکہ درمیانہ داری کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ اس کیلئے ڈیجٹل انٹرنیٹ بازار کافی فائدہ مند ہے۔سرکار کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے گرپوں کے ہمراہ پیدواری سوسائٹیوں کا قیام عمل میں لائے اور انہیں قیمتوں سے متعلق مسائل کا ازالہ کرنے کیلئے اختیارات سے لیس کریں۔
حکومت ملک بھر میں10ہزار پیدواری سوسائٹیوں کا قیام عمل میں لانے کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ کسانوں کو چاہیے کہ وہ موثر اور مثبت انداز میں اس کا ردعمل پیش کریں۔یہ پیدواری سوسائٹیاں دیہی سطحوں پر دالوں کو صاف کریں گی اور ان کی پئیکنگ بھی معقول انداز میں کریں گی،جس کے بعد وہ ان کو آن لائن مارکیٹوں جیسے آمیزان، بگ باسکٹ کے علاوہ شہروں میں دکانوں اور سپر پارکیٹوں کو سپلائی کریں گی۔اس عمل سے کسانوں کو معقول قیمتیوں کا جہاں حصول ہوگا وہیں بازاروں میں بھی صارفین کو کم قیمتوں پر یہ دالیں دستیاب ہونگی۔ راشن کی دکانوں سے اس کو تقسیم کاری کا ناقابل تنسیخ حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
دالوں کو اسکولوں میں مڈ ڈے میل اسکیموں میں بھی شامل کرنا لازمی ہے،تاکہ آئندہ نسلوں کو تندرست رکھا جائے اور انہیں معقول اور معیاری غذا کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔پیدوار میں اضافے اور کسانوں کو معقول قیمتوں کی ادائیگی ملک میں سماجی، معاشی اور طبی لحاض سے کافی فائدہ مند ثابت ہوگا۔
تحقیق کو مزید تیز کرنے کی ضرورت
قومی غذائی تحفظ مشن نے دالوں کی پیداور میں اضافے کیلئے کئی پروجیکٹوں کو ہاتھوں میں لیا ہے، جس کیلئے ملک بھر میں15ریاستوں میں پیدوار میں اضافہ کرنے کیلئے296کروڑ روپے کی رقم کو مختص رکھا گیا ہے۔ گنے کی کھیتوں میں دالوں کی پیدار کو مشترکہ فصل کے طور پر پیداواری پروجیکٹ کو کسانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے شروعات کی گئی ہے۔
سبز چنے اور کالے چنے کی پیدوار میں اضافے کیلئے12لاکھ ہیکٹر اضافی اراضی پر اصل فصل کی پیدوار کے بعد خصوصی پروگرام کو شروع کیا گیا ہے ۔ ملک بھر میں دالوں کی متوقع پیدوار میں کمی کی اصل وجہ مضبوط و معیاری اقسام کی عدم دستیابی ہے، جس کو کیڑوں سے بچا کر اچھی پیدوار حاصل کی جاسکتی ہے۔اس مناسبت سے بہتر پیدار کے حصول اور کیڑوں کو ختم کرنے کیلئے گہری اور باریک بینی سے تحقیق کی ضرورت ہے۔