ماہرین اقتصادیات کے مطابق رواں برس عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین صورتِ حال پیدا ہوجائے گی اور عوام کو بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے مستثنیٰ ممکنہ طور چین اور بھارت رہ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیا کی دو تہائی آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے جس میں کوویڈ 19کے بحران سے غیرمعمولی معاشی نقصان ہوا ہے ۔
اقوام متحدہ ان ممالک کے لئے ڈھائی ٹریلین ڈالر کے بچاؤ پیکیج کا مطالبہ کررہا ہے۔
تجارت اور ترقی کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) کے نئے تجزیے کے مطابق ، اقوام متحدہ کی تجارت و ترقیاتی ادارہ 'کوویڈ 19 کو ترقی پذیر ممالک کے لئے ’صدمہ' قرار دیا ہے۔
یو این سی ٹی اے ڈی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ، ترقی یافتہ معیشتوں اور چین نے بڑے پیمانے پر سرکاری پیکیج رکھے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو انسان کو جسمانی، معاشی اور نفسیاتی طور پر صدمے سے دوچار کر دے گا۔
وہیں عالمی معیشت اس سال کھربوں ڈالر میں ہونے والی عالمی آمدنی کے پیش گوئی کے ساتھ کساد بازاری کی شکار ہو جائے گی۔
تاہم ، اس رپورٹ میں اس بارے میں تفصیلی وضاحت نہیں دی گئی ہے کہ بھارت اور چین اس سے مستثنیٰ کیوں اور کیسے ہوں گے کیوں کہ دنیا کو عالمی سطح پر ہونے والی کساد بازاری اور خسارے کا سامنا ہے جس کا اثر ترقی پذیر ممالک پر لازماً ہوگا۔
مزید یہ کہ ، بگڑتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر ، مالی اور زرمبادلہ کی رکاوٹیں سال کے دوران مزید سخت کرنے کا پابند ہیں۔
یو این سی ٹی اے ڈی کا تخمینہ ہے کہ آئندہ دو برسوں میں ترقی پذیر ممالک کو تقریباً تین ٹریلین امریکی ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
یو این سی ٹی اے ڈی نے کہا ، اس وبائی بیماری سے معاشی صدمے نے ترقی پذیر ممالک کو جس تیزی سے متاثر کیا ہے وہ ڈرامائی ہے ، حتی کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔
یو این سی ٹی اے ڈی کے سکریٹری جنرل مخیسہ کیتیوئی نے کہا کہ اس جھٹکے سے معاشی خرابی جاری ہے اور اس کی پیش گوئی کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ترقی پذیر معیشتوں کے بہتر ہونے سے پہلے حالات بہت خراب ہوجائیں گے۔