ETV Bharat / business

زرعی بل: ملک بھر میں احتجاج، شمالی بھارت میں زیادہ ابال؟ - کاشتکاری میں کارپوریٹ کی مداخلت میں اضافہ ہوگا

پارلیمنٹ سے منظور شدہ زرعی بل کے خلاف گذشتہ کئی دنوں سے ملک بھر میں احتجاج ہورہے ہیں، لیکن شمالی بھارت میں زیادہ احتجاج کی کیا ہے وجہ آئیے جانتے ہیں اس کی اہم وجوہات۔

why farmer protests have been loudest in Punjab, Haryana
why farmer protests have been loudest in Punjab, Haryana
author img

By

Published : Sep 26, 2020, 6:36 PM IST

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور زرعی بلز کے خلاف حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سمیت کسانوں کی تنظیموں کے ذریعہ بلائے جانے والے بھارت بند کا سب سے زیادہ اثر شمالی بھارت خصوصاً پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں دیکھا گیا۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں اور کسان تنظیموں نے دیگر ریاستوں میں بھی مظاہرے کیے۔ بھارتی کسان یونین (بی کے یو) کا دعویٰ ہے کہ بھارت بند کے دوران جمعہ کو پنجاب اور ہریانہ مکمل طور پر بند رہے۔ بھارتی کسان یونین کے علاوہ کئی دیگر کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے بھی دونوں ریاستوں میں بند کی حمایت کی۔ پنجاب اور ہریانہ میں، کانگریس سے وابستہ کسان تنظیموں، شرومنی اکالی نے بلز کی مخالفت کی۔ مغربی اتر پردیش میں بھی، کسانوں نے متعدد مقامات پر اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔ نوئیڈا میں دہلی اترپردیش سرحد پر بھارتی کسان تنظیم سے وابستہ افراد نے دہلی مظاہرہ کیا۔

دوسری طرف، بہار میں، مرکزی حزب اختلاف کی جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔ زراعت بل پر احتجاج مہاراشٹر، راجستھان، کرناٹک، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ جیسے مقامات پر بھی کسانوں کی تنظیموں نے بل کے خلاف احتجاج کیا۔ مہاراشٹر میں، بل کے خلاف احتجاج میں کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس، آل انڈیا کسان سبھا کے رہنماؤں اور کارکنوں نے حصہ لیا۔ کسانوں نے ممبئی، تھانہ، پالگھر، پونے، کولہا پور، ناسک، جالنہ سمیت متعدد مقامات پر مظاہرہ کیا۔

why farmer protests have been loudest in Punjab, Haryana
سیاسی جماعتوں سمیت کسانوں کی تنظیموں کے ذریعہ بلائے جانے والے بھارت بند

مدھیہ پردیش کے مدسور، نیمچ، رتلم ہردا سمیت متعدد مقامات پر کسانوں نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔

مظاہروں میں شامل کسانوں کی تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نیا قانون زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹی (اے پی ایم سی) کے زیر انتظام منڈیوں کا خاتمہ کرے گا، جس سے کسانوں کو اپنی پیداوار فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر فصلوں کی خریداری کے بارے میں بھی شبہ ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں اہم خریف کی فصل دھان اور ربیع کی فصل گندم ایم ایس پی پر بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی ہے اور دونوں ریاستوں میں اے پی ایم سی نظام دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں زرعی بلوں کی بہت مخالفت ہورہی ہے۔

ہریانہ میں بھاکیؤ کے ریاستی صدر گورام سنگھ نے کہا کہ ان بلوں کے ذریعہ مرکزی حکومت منڈیوں کو توڑنے اور ایم ایس پی کو ختم کرنے کے لیے ڈھانچہ ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایس پی پر غلہ نہیں کی فروخت نہ ہونے سے کاشتکار تباہ ہوجائیں گے۔

تاہم مرکزی نریندر سنگھ تومر نے بار اس بات کا اعادہ کیا کہ کسانوں سے ایم ایس پی پر فصلوں کی خریداری کا عمل جاری رہے گی اور ان بلوں میں کاشتکاروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کو اے پی ایم سی کے دائرہ سے باہر فروخت کریں جس سے مقابلہ میں اضافہ ہوگا اور کسانوں کو ان کی مصنوعات کے لیے مناسب قیمتیں ملیں گی۔

خیال رہے کہ کسانوں کی پیداواری تجارت ( فروغ اور سہولت کاری ) بل 2020 اور (خودمختاری اور تحفظ) قیمتوں کے تیقن اور کھیتی سے متعلق خدمات بل 2020 کے معاہدے کے ساتھ ساتھ اشیاء ضروریہ (ترمیمی) بل 2020 کو بھی پارلیمنٹ نے منظور کرلیا ہے۔ہے یہ تینوں بل 5 جون کو کورونا مدت میں اعلان کردہ تین آرڈیننس کی جگہ لیں گے۔

پنجاب میں بھاکیو کے ریاستی صدر اجمیر سنگھ لکھوال نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ اگر مرکزی حکومت کسانوں کے مفادات کے بارے میں سوچتی تو اس بل سے تمام فصلوں کے لیے کم از کم قیمت کی ضمانت مل جاتی۔ کسانوں کے کسی بھی پیداوار ( جن کے لیے ایم پی ایم کا اعلان کیا جاتا ہے) اس کی خریداری ایم ایس پی سے قیمت پر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ' اس بل سے کاشتکاری میں کارپوریٹ کی مداخلت میں اضافہ ہوگا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ ہوگا'۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور زرعی بلز کے خلاف حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سمیت کسانوں کی تنظیموں کے ذریعہ بلائے جانے والے بھارت بند کا سب سے زیادہ اثر شمالی بھارت خصوصاً پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں دیکھا گیا۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں اور کسان تنظیموں نے دیگر ریاستوں میں بھی مظاہرے کیے۔ بھارتی کسان یونین (بی کے یو) کا دعویٰ ہے کہ بھارت بند کے دوران جمعہ کو پنجاب اور ہریانہ مکمل طور پر بند رہے۔ بھارتی کسان یونین کے علاوہ کئی دیگر کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے بھی دونوں ریاستوں میں بند کی حمایت کی۔ پنجاب اور ہریانہ میں، کانگریس سے وابستہ کسان تنظیموں، شرومنی اکالی نے بلز کی مخالفت کی۔ مغربی اتر پردیش میں بھی، کسانوں نے متعدد مقامات پر اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔ نوئیڈا میں دہلی اترپردیش سرحد پر بھارتی کسان تنظیم سے وابستہ افراد نے دہلی مظاہرہ کیا۔

دوسری طرف، بہار میں، مرکزی حزب اختلاف کی جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔ زراعت بل پر احتجاج مہاراشٹر، راجستھان، کرناٹک، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ جیسے مقامات پر بھی کسانوں کی تنظیموں نے بل کے خلاف احتجاج کیا۔ مہاراشٹر میں، بل کے خلاف احتجاج میں کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس، آل انڈیا کسان سبھا کے رہنماؤں اور کارکنوں نے حصہ لیا۔ کسانوں نے ممبئی، تھانہ، پالگھر، پونے، کولہا پور، ناسک، جالنہ سمیت متعدد مقامات پر مظاہرہ کیا۔

why farmer protests have been loudest in Punjab, Haryana
سیاسی جماعتوں سمیت کسانوں کی تنظیموں کے ذریعہ بلائے جانے والے بھارت بند

مدھیہ پردیش کے مدسور، نیمچ، رتلم ہردا سمیت متعدد مقامات پر کسانوں نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔

مظاہروں میں شامل کسانوں کی تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نیا قانون زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹی (اے پی ایم سی) کے زیر انتظام منڈیوں کا خاتمہ کرے گا، جس سے کسانوں کو اپنی پیداوار فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر فصلوں کی خریداری کے بارے میں بھی شبہ ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں اہم خریف کی فصل دھان اور ربیع کی فصل گندم ایم ایس پی پر بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی ہے اور دونوں ریاستوں میں اے پی ایم سی نظام دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں زرعی بلوں کی بہت مخالفت ہورہی ہے۔

ہریانہ میں بھاکیؤ کے ریاستی صدر گورام سنگھ نے کہا کہ ان بلوں کے ذریعہ مرکزی حکومت منڈیوں کو توڑنے اور ایم ایس پی کو ختم کرنے کے لیے ڈھانچہ ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایس پی پر غلہ نہیں کی فروخت نہ ہونے سے کاشتکار تباہ ہوجائیں گے۔

تاہم مرکزی نریندر سنگھ تومر نے بار اس بات کا اعادہ کیا کہ کسانوں سے ایم ایس پی پر فصلوں کی خریداری کا عمل جاری رہے گی اور ان بلوں میں کاشتکاروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کو اے پی ایم سی کے دائرہ سے باہر فروخت کریں جس سے مقابلہ میں اضافہ ہوگا اور کسانوں کو ان کی مصنوعات کے لیے مناسب قیمتیں ملیں گی۔

خیال رہے کہ کسانوں کی پیداواری تجارت ( فروغ اور سہولت کاری ) بل 2020 اور (خودمختاری اور تحفظ) قیمتوں کے تیقن اور کھیتی سے متعلق خدمات بل 2020 کے معاہدے کے ساتھ ساتھ اشیاء ضروریہ (ترمیمی) بل 2020 کو بھی پارلیمنٹ نے منظور کرلیا ہے۔ہے یہ تینوں بل 5 جون کو کورونا مدت میں اعلان کردہ تین آرڈیننس کی جگہ لیں گے۔

پنجاب میں بھاکیو کے ریاستی صدر اجمیر سنگھ لکھوال نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ اگر مرکزی حکومت کسانوں کے مفادات کے بارے میں سوچتی تو اس بل سے تمام فصلوں کے لیے کم از کم قیمت کی ضمانت مل جاتی۔ کسانوں کے کسی بھی پیداوار ( جن کے لیے ایم پی ایم کا اعلان کیا جاتا ہے) اس کی خریداری ایم ایس پی سے قیمت پر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ' اس بل سے کاشتکاری میں کارپوریٹ کی مداخلت میں اضافہ ہوگا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ ہوگا'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.