وزیر خزانہ نرمل سیتارامن نے بجٹ 2020-21 میں کسی فضول خرچی کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے در اصل اس بجٹ کے پس پردہ وزیر اعظم مودی کے سیاسی اہداف کو ظاہر کیا ہے۔انہوں نے اس بجٹ میں کوئی جھوٹے خواب بھی نہیں دکھائے ہیں اور نہ ہی جھُل دینے کے لئے برائے نام اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔
حالانکہ ماہرین، اس طرح کی کئی اصلاحات کے خواہاں تھے اور وزیر اعظم سے اصرار کررہے تھے کہ ایسا کرنے کے لئے یہی ایک نادر موقعہ ہے۔ بجٹ میں طویل مدتی سرمایہ جاتی کو ختم کرنے جیسی چیزیں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ہی سینسیکس میں کوئی جوش دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔
لیکن جو لوگ مودی کو اچھی طرح جانتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ مودی دراصل گھسے پٹے اقدامات یا وہ اقدامات جو نرسمہا راؤ نے سنہ 1991ء میں کئے تھے ، کے بجائے خصوصی طور ہدایات کردہ اقدمات کو ہی ترجیح دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کی حکومت آمدن کے خسار ے کا ازالہ کرنے کی بھی خواہاں ہے۔
یہ حکومت بھارت میں انفراسٹکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے کی جانے والی سرکاری فنڈنگ میں ٹیکس کی سو فیصد چھوٹ دینے کے لئے بھی تیار نظر آرہی ہے۔
اس استثنیٰ کے ساتھ ساتھ ، مودی حکومت ڈیویڈنٹ ڈسٹری بیوشن ٹیکس ( ڈی ڈی ٹی ) کو ختم کرکے مزید 22ہزار کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنے کے لئے راضی ہے، تاکہ ملک میں انفراسٹکچر سے جڑے پروجیکٹوں کے لئے غیر ملکی اور حکومتی سرمایہ کاری کے لئے راہ ہموار ہو۔
حکومت کو اُمید ہے کہ اس طرح سے بھارت میں مطلوبہ عالمی معیار کا انفراسٹکچر قائم کرنے کے لئے بے پناہ سرمایہ کاری ملے گی ۔ یہ سرمایہ کاری آنے والے چاربرسوں میں ایک کھرب ڈالر جتنی بڑی ہوسکتی ہے۔
اس کےعلاوہ حکومت نے ' وِواد سے و ِشواش' نامی اسکیم کو متعارف کراتے ہوئے کئی اقسام کے ٹیکس میں استثنیٰ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں سود اور جرمانے کو معاف کرنے کے مطالبے سے جڑے 4 لاکھ 90ہزار سے زائد مقدمات کم ہوجائیں گے۔
تاہم اس بجٹ سے متعلق شہ سرخیوں میں صرف انفرادی ٹیکس دہندگان کو ملنے والی راحت اور انکم ٹیکس میں کمی جیسی باتوں کا ہی ذکر ہے ۔ اس بجٹ میں ذاتی انکم ٹیکس سے متعلق آسان نظام متعارف کیا گیا ہے ، جس میں انکم ٹیکس کی شرح کافی حد تک کم کردی گئی ہیں اور اسکی وجہ سے انفرادی ٹیکس دہندگان کو راحت ملے گی ۔
بجٹ میں موجودہ 100مختلف اقسام کی چھوٹ اور کٹوتیوں میں سے 70کو ختم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ جبکہ باقی ماندہ استثنیٰ اور کٹوتیوں پر اسر نو غور کیا جائے گا اور آنے والے برسوں میں ان سے متعلق نئی نظام سازی ہوگی۔ تاکہ ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس نظام کو زیادہ آسان بنایا جاسکے ۔
دیانتدار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک نیا منشور متعارف کرانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ بینکوں میں اپنا پیسہ جمع رکھنے والے مڈل کلاس سے جڑے لوگوں، جو بینکوں میں ہورہی دھاندلیوں کی وجہ سے ہر وقت ڈرے ہوئے رہتے ہیں، ان کے جمع شدہ پیسے کوانشورنس کے دائرے میں لایا جارہا ہے۔
اب ڈیپازٹ انشورنس اینڈ کریڈیٹ گارنٹی کارپوریشن(ڈی آئی سی جی سی ) کو یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ بینکوں میں پیسہ جمع رکھنے والوں کی رقومات کا انشورنس کرنے کا دائرہ ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ تک کریں ۔یعنی اب بینکوں میں جمع پانچ لاکھ روپے تک کی رقم کے تحفظ کی ضمانت مل گئی ہے۔
مودی کی خواہشات کے عین مطابق سیتارامن کے اس بجٹ میں اُن مخصوص شعبوں کے لئے رقومات مختص رکھی گئی ہیں ، جن کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں اقتصادی خوشحالی آنے کی توقع ہے۔
سیتا رامن کی جانب سے بجٹ پیش کئے جانے اور اس کے نتیجے میں سینسکس میں تنزل پیدا ہوجانے کے چند گھنٹوں بعد مودی نے اس بجٹ کو سب کا ساتھ بجٹ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں صرف ویژن ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات کے لئے بھی راہ ہموار کی گئی ہے۔ وزیر اعظم کا اصرار تھا کہ بجٹ میں اعلان کردہ نئی اصلاحات سے ملک کے ہر شہری کو اقتصادی اور معاشی لحاظ سے با اختیار بنانے کا عمل تیز ہوگا اور اس کی وجہ سے اس دہائی میں ملک کی اقتصادیات کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مدد ملے گی ۔
ملک کے دیہات کے تئیں وزیر اعظم کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کی اندازہ بھی بجٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بجٹ میں آبپاشی نظام اور دیہی معیشت سے جڑے دوسرے شعبوں پر خطیر رقومات کو خرچ کرتے ہوئے کسانوں کی آمدنی 2022ء تک دوگنی کرنے کے حکومتی حدف کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس بجٹ میں ملک کے اُن نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو اپنے نئے پروجیکٹوں کی شروعات کرنے کے خواہاں ہیں۔
تاہم مودی کے ناقدین نے بجٹ میں مستقبل میں پیدا کیے جانے والے روزگار کے مواقعوں کے بارے میں کسی وضاحت کی عدم موجودگی پر سوال اٹھارہے ہیں۔
لیکن مودی اور سیتا رامن دونوں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے شعبے زراعت، انفراسٹکچر، ٹیکسٹائلز اور ٹیکنالوجی ہونگے۔روز گار کے مواقع بڑھانے کے لئے ان چار شعبوں کو بجٹ میں خاص اہمیت دے دی گئی ہے۔
اڑن سکیم کو مزید مضبوط کرتے ہوئے سنہ 2024ء تک مزید 100 ائرپورٹس بنانے اور مزید 150مسافر ٹرینوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ( پی پی پی) طرز پر چلانا شروع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ ان اقدامات سے انفراسٹکچر کے شعبے کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوگا۔
سیتا رامن نے مودی کے سیاسی اہداف کے حوالے سے اُنکی ترجیحات کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ، ہمارے وزیر اعظم نے تمام شہریوں کی زندگی کو آسانیاں فراہم کرنے کا ہدف ہمارے سامنے رکھا ہے۔
مالی سال 2020-21کے لیے زراعتی شعبے سے جڑا قرضہ 15لاکھ کروڑ تک لے جانے جیسے کسان دوست اقدامات اس ہدف کی تکمیل کا حصہ ہیں۔ 'کرشی اڑان' اور 'کرشی ریل' جیسی اسکیموں کے تحت کیے جانے والے اقدامات بھی اسی ہدف کی تکمیل کی طرف اقدامات ہیں۔جبکہ 'پی ایم کسُم اسکیم' کو توسیع دی گئی ہے جس کے نتیجے میں بیس لاکھ کسان سولر پمپ قائم کر پائیں گے۔
مودی بجٹ میں نئی نیشنل ایکروٹمنٹ ایجنسی کے اعلان پر بھی پر جوش تھے ۔ اِس کے تحت اب سرکاری شعبوں میں نچلے درجے کے ملازمین کی بھرتیوں کا عمل بغیر کسی رکائوٹ کے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا سرکاری نوکریوں کے لیے طرح طرح کے امتحانات کے بجائے اب نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی کے ذریعے واحد آن لائن امتحان لیا جائے گا۔جب سیتا رامن نے کہا کہ یہ بجٹ تین اہم موضوعات کے ارد گرد مرتب کیا گیا ہے تو دراصل وہ وزیر اعظم کے' امنگوں والے بھارت 'کے سیاسی نعرے کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کرنے کا اشارہ کررہی تھی ۔
مودی کے مطابق امنگوں والا بھارت وہ ہے ، جس میں سماج کے تمام طبقات ایک بہتر معیار زندگی کے متمنی ہیں اور بہتر طبی اور تعلیمی سہولیات اور بہتر روز گار کے مواقع چاہتے ہیں۔ان تین شعبوں کو کرپشن سے پاک ، منصوبہ بندی کے ساتھ چلائی جانے والی حکمرانی اور شفاف حکمرانی کے ذریعے یک جٹ کردیا گیا ہے۔
جہاں تک مقامی طور پر اشیاء تیار کرنے کا تعلق ہے ، حکومت نے اس کے امکانات کو بہتر بنانے کے لئے خام مال کی بر آمدگی پر پابندی یا کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کردیا ہے تاکہ چین جیسے ممالک کی جانب سے خام مال کی ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں ہمارے اپنے یونٹس بند نہ ہوجائیں۔
حالانکہ اس کی وجہ سے دوسرے ممالک بھارت پرپروٹکشنسٹ ہونے یعنی اپنے تجارت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سخت گیر قواعد بنانے کا الزام عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ بھارت میں تجارتی شعبے کو فروغ دینے کے مقابلے میں کوئی بڑی قیمت نہیں ہوگی۔
بجٹ میں وزیر اعظم مودی کے سیاسی اہداف کی جھلک
سینئر صحافی شیکھر ایئر نے بجٹ 2020-21 کے حوالے سے کہا کہ مودی کی خواہشات کے عین مطابق سیتارامن نے اپنے بجٹ میں اُن مخصوص شعبوں کے لیے رقومات مختص رکھی ہیں ، جن کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں اقتصادی خوشحالی آنے کی توقع ہے۔
وزیر خزانہ نرمل سیتارامن نے بجٹ 2020-21 میں کسی فضول خرچی کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے در اصل اس بجٹ کے پس پردہ وزیر اعظم مودی کے سیاسی اہداف کو ظاہر کیا ہے۔انہوں نے اس بجٹ میں کوئی جھوٹے خواب بھی نہیں دکھائے ہیں اور نہ ہی جھُل دینے کے لئے برائے نام اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔
حالانکہ ماہرین، اس طرح کی کئی اصلاحات کے خواہاں تھے اور وزیر اعظم سے اصرار کررہے تھے کہ ایسا کرنے کے لئے یہی ایک نادر موقعہ ہے۔ بجٹ میں طویل مدتی سرمایہ جاتی کو ختم کرنے جیسی چیزیں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ہی سینسیکس میں کوئی جوش دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔
لیکن جو لوگ مودی کو اچھی طرح جانتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ مودی دراصل گھسے پٹے اقدامات یا وہ اقدامات جو نرسمہا راؤ نے سنہ 1991ء میں کئے تھے ، کے بجائے خصوصی طور ہدایات کردہ اقدمات کو ہی ترجیح دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کی حکومت آمدن کے خسار ے کا ازالہ کرنے کی بھی خواہاں ہے۔
یہ حکومت بھارت میں انفراسٹکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے کی جانے والی سرکاری فنڈنگ میں ٹیکس کی سو فیصد چھوٹ دینے کے لئے بھی تیار نظر آرہی ہے۔
اس استثنیٰ کے ساتھ ساتھ ، مودی حکومت ڈیویڈنٹ ڈسٹری بیوشن ٹیکس ( ڈی ڈی ٹی ) کو ختم کرکے مزید 22ہزار کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنے کے لئے راضی ہے، تاکہ ملک میں انفراسٹکچر سے جڑے پروجیکٹوں کے لئے غیر ملکی اور حکومتی سرمایہ کاری کے لئے راہ ہموار ہو۔
حکومت کو اُمید ہے کہ اس طرح سے بھارت میں مطلوبہ عالمی معیار کا انفراسٹکچر قائم کرنے کے لئے بے پناہ سرمایہ کاری ملے گی ۔ یہ سرمایہ کاری آنے والے چاربرسوں میں ایک کھرب ڈالر جتنی بڑی ہوسکتی ہے۔
اس کےعلاوہ حکومت نے ' وِواد سے و ِشواش' نامی اسکیم کو متعارف کراتے ہوئے کئی اقسام کے ٹیکس میں استثنیٰ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں سود اور جرمانے کو معاف کرنے کے مطالبے سے جڑے 4 لاکھ 90ہزار سے زائد مقدمات کم ہوجائیں گے۔
تاہم اس بجٹ سے متعلق شہ سرخیوں میں صرف انفرادی ٹیکس دہندگان کو ملنے والی راحت اور انکم ٹیکس میں کمی جیسی باتوں کا ہی ذکر ہے ۔ اس بجٹ میں ذاتی انکم ٹیکس سے متعلق آسان نظام متعارف کیا گیا ہے ، جس میں انکم ٹیکس کی شرح کافی حد تک کم کردی گئی ہیں اور اسکی وجہ سے انفرادی ٹیکس دہندگان کو راحت ملے گی ۔
بجٹ میں موجودہ 100مختلف اقسام کی چھوٹ اور کٹوتیوں میں سے 70کو ختم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ جبکہ باقی ماندہ استثنیٰ اور کٹوتیوں پر اسر نو غور کیا جائے گا اور آنے والے برسوں میں ان سے متعلق نئی نظام سازی ہوگی۔ تاکہ ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس نظام کو زیادہ آسان بنایا جاسکے ۔
دیانتدار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک نیا منشور متعارف کرانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ بینکوں میں اپنا پیسہ جمع رکھنے والے مڈل کلاس سے جڑے لوگوں، جو بینکوں میں ہورہی دھاندلیوں کی وجہ سے ہر وقت ڈرے ہوئے رہتے ہیں، ان کے جمع شدہ پیسے کوانشورنس کے دائرے میں لایا جارہا ہے۔
اب ڈیپازٹ انشورنس اینڈ کریڈیٹ گارنٹی کارپوریشن(ڈی آئی سی جی سی ) کو یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ بینکوں میں پیسہ جمع رکھنے والوں کی رقومات کا انشورنس کرنے کا دائرہ ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ تک کریں ۔یعنی اب بینکوں میں جمع پانچ لاکھ روپے تک کی رقم کے تحفظ کی ضمانت مل گئی ہے۔
مودی کی خواہشات کے عین مطابق سیتارامن کے اس بجٹ میں اُن مخصوص شعبوں کے لئے رقومات مختص رکھی گئی ہیں ، جن کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں اقتصادی خوشحالی آنے کی توقع ہے۔
سیتا رامن کی جانب سے بجٹ پیش کئے جانے اور اس کے نتیجے میں سینسکس میں تنزل پیدا ہوجانے کے چند گھنٹوں بعد مودی نے اس بجٹ کو سب کا ساتھ بجٹ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں صرف ویژن ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات کے لئے بھی راہ ہموار کی گئی ہے۔ وزیر اعظم کا اصرار تھا کہ بجٹ میں اعلان کردہ نئی اصلاحات سے ملک کے ہر شہری کو اقتصادی اور معاشی لحاظ سے با اختیار بنانے کا عمل تیز ہوگا اور اس کی وجہ سے اس دہائی میں ملک کی اقتصادیات کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مدد ملے گی ۔
ملک کے دیہات کے تئیں وزیر اعظم کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کی اندازہ بھی بجٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بجٹ میں آبپاشی نظام اور دیہی معیشت سے جڑے دوسرے شعبوں پر خطیر رقومات کو خرچ کرتے ہوئے کسانوں کی آمدنی 2022ء تک دوگنی کرنے کے حکومتی حدف کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس بجٹ میں ملک کے اُن نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو اپنے نئے پروجیکٹوں کی شروعات کرنے کے خواہاں ہیں۔
تاہم مودی کے ناقدین نے بجٹ میں مستقبل میں پیدا کیے جانے والے روزگار کے مواقعوں کے بارے میں کسی وضاحت کی عدم موجودگی پر سوال اٹھارہے ہیں۔
لیکن مودی اور سیتا رامن دونوں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے شعبے زراعت، انفراسٹکچر، ٹیکسٹائلز اور ٹیکنالوجی ہونگے۔روز گار کے مواقع بڑھانے کے لئے ان چار شعبوں کو بجٹ میں خاص اہمیت دے دی گئی ہے۔
اڑن سکیم کو مزید مضبوط کرتے ہوئے سنہ 2024ء تک مزید 100 ائرپورٹس بنانے اور مزید 150مسافر ٹرینوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ( پی پی پی) طرز پر چلانا شروع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ ان اقدامات سے انفراسٹکچر کے شعبے کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوگا۔
سیتا رامن نے مودی کے سیاسی اہداف کے حوالے سے اُنکی ترجیحات کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ، ہمارے وزیر اعظم نے تمام شہریوں کی زندگی کو آسانیاں فراہم کرنے کا ہدف ہمارے سامنے رکھا ہے۔
مالی سال 2020-21کے لیے زراعتی شعبے سے جڑا قرضہ 15لاکھ کروڑ تک لے جانے جیسے کسان دوست اقدامات اس ہدف کی تکمیل کا حصہ ہیں۔ 'کرشی اڑان' اور 'کرشی ریل' جیسی اسکیموں کے تحت کیے جانے والے اقدامات بھی اسی ہدف کی تکمیل کی طرف اقدامات ہیں۔جبکہ 'پی ایم کسُم اسکیم' کو توسیع دی گئی ہے جس کے نتیجے میں بیس لاکھ کسان سولر پمپ قائم کر پائیں گے۔
مودی بجٹ میں نئی نیشنل ایکروٹمنٹ ایجنسی کے اعلان پر بھی پر جوش تھے ۔ اِس کے تحت اب سرکاری شعبوں میں نچلے درجے کے ملازمین کی بھرتیوں کا عمل بغیر کسی رکائوٹ کے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا سرکاری نوکریوں کے لیے طرح طرح کے امتحانات کے بجائے اب نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی کے ذریعے واحد آن لائن امتحان لیا جائے گا۔جب سیتا رامن نے کہا کہ یہ بجٹ تین اہم موضوعات کے ارد گرد مرتب کیا گیا ہے تو دراصل وہ وزیر اعظم کے' امنگوں والے بھارت 'کے سیاسی نعرے کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کرنے کا اشارہ کررہی تھی ۔
مودی کے مطابق امنگوں والا بھارت وہ ہے ، جس میں سماج کے تمام طبقات ایک بہتر معیار زندگی کے متمنی ہیں اور بہتر طبی اور تعلیمی سہولیات اور بہتر روز گار کے مواقع چاہتے ہیں۔ان تین شعبوں کو کرپشن سے پاک ، منصوبہ بندی کے ساتھ چلائی جانے والی حکمرانی اور شفاف حکمرانی کے ذریعے یک جٹ کردیا گیا ہے۔
جہاں تک مقامی طور پر اشیاء تیار کرنے کا تعلق ہے ، حکومت نے اس کے امکانات کو بہتر بنانے کے لئے خام مال کی بر آمدگی پر پابندی یا کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کردیا ہے تاکہ چین جیسے ممالک کی جانب سے خام مال کی ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں ہمارے اپنے یونٹس بند نہ ہوجائیں۔
حالانکہ اس کی وجہ سے دوسرے ممالک بھارت پرپروٹکشنسٹ ہونے یعنی اپنے تجارت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سخت گیر قواعد بنانے کا الزام عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ بھارت میں تجارتی شعبے کو فروغ دینے کے مقابلے میں کوئی بڑی قیمت نہیں ہوگی۔
state
Conclusion: