ETV Bharat / business

کورونا بحران سے نبردآزما بھارت کا آئی ٹی سیکٹر! - آئی ٹی ملازم کی نوکریاں خطرے میں

بھارت میں ترقی کی تاریخ میں اہم کردار نبھاتی آرہی اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی صنعت کو کورونا وائرس وبأ سے زبردست دھچکہ لگا ہے۔اس صنعت میں آپریشنز کے پوری طرح رُک جانے کے ساتھ ساتھ مصنوعات اور خدمات کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے یہاں تک کہ 1.5 لاکھ سے زیادہ نوکریاں خطرے میں ہیں۔یہ بھارت کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں ایک بے مثال بحران ہے۔ تازہ پیشرفتیں اس صنعت کیلئے ایک دھچکہ بن کر آئی ہیں حالانکہ یہ پہلے ہی اقتصادی سُست روی کی وجہ سے جدوجہد میں تھی۔ موجودہ مصیبت میں آگے بڑھتے رہنا اس صنعت کیلئے ایک بہت بڑا چلینج ہے۔

کورونا بحران سے نبردآزما بھارت کا آئی ٹی سیکٹر!
کورونا بحران سے نبردآزما بھارت کا آئی ٹی سیکٹر!
author img

By

Published : May 21, 2020, 10:49 PM IST

اطلاعاتی ٹیکنالوجی ایک علم پر مبنی (نالیج بیسڈ) صنعت ہے جس کی انسانوں کی زندگی بدلنے میں بڑی حصہ داری ہے۔ منظم، فوری، آسان، شفاف اور خوشحال ہونے کے ساتھ ساتھ اس صنعت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے ’’اسٹارٹ اپ‘‘ شعبہ کو فروغ دیا ہے۔اسی صنعت نے جدید گورننس اور ڈیجیٹل دنیا کا راستہ کھولا ۔ بھارت نے آئی ٹی کے شعبہ میں لگ بھگ پانچ دہائیوں میں ایک مستحکم حیثیت حاصل کرلی ہے یہاں تک کہ ملک کی اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں یہ شعبہ بڑا کار آمد ثابت ہوا یہاں تک کہ یہ صنعت ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈٰ پی) کے 7.7 فیصد کے برابر ہے۔

بھارت،جس نے ماضیٔ قریب میں ایک قابلِ رشک ترقی کا راستہ دکھایا ہے،اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں ایک راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے پاس عالمی آئی ٹی خدمات (گلوبل آئی ٹی سروسز) کے 55 فیصد حصص ہیں ، 200 بھارتی آئی ٹی کمپنیاں دنیا بھر کے لگ بھگ 80 ممالک میں سرگرم ہیں جبکہ بھارت دنیا کی 75 فیصد ڈیجیٹل خدمات فراہم کرتا ہے۔ بھارت کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی صنعت کے حجم کا 2018-19 میں 181 بلین امریکی ڈالروں کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔اس میں 137 بلین امریکی ڈالروں کی مالیت کی درآمدگی شامل ہے۔بھارت کی آئی ٹی صنعت بتدریج وسعت پاتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کھینچ رہی ہے۔

سال 2000 اور 2019 کے درمیان ہارڈ وئیر اور سافٹ ویئر شعبوں میں 43 بلین امریکی ڈالروں کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ صنعت روزگار کے مواقعہ کے حوالے سے بھی وسیع ہوچکی ہے ۔داخلی طور پر بھارتی آئی ٹی شعبہ 46 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے جبکہ اسکے علاوہ مزید 20 لاکھ افراد بیرون ممالک کام کرتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں آئی ٹی نوکریوں کی ترجیحات کی فہرست میں اول نمبر پر رہتی آئی ہے۔ کیرئر کی ترقی اور پُر کشش مراعات کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت اس صنعت میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔

تیزی سے بلندیوں پر جانے والی آئی ٹی صنعت کو تاہم تنزلی میں اپنا حصہ لینا پڑا،مالی بحران،قیمتوں کو قابو کرنے کے اقدامات (کاسٹ کنٹرول میجرس) اور روبوٹ و اعدادو شمار کے جائزہ (روبوٹکس اینڈ ڈیٹا انالیٹکس) جیسی چیزوں نے آئی ٹی صنعت کے تنزل میں کردار نبھایا ہے۔

دراصل اس صنعت سے متعلق چیزیں تب ہی سے بدلنا شروع ہوگئی تھیں کہ جب سے ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ میں صدارتی عہدہ کیلئے منتخب ہوئے کیونکہ انہوں نے بعض ایسے فیصلے لئے جن کی وجہ سے آئی ٹی ماہرین اور اس صنعت میں روزگار تلاش کرنے والوں پر قیامت ثابت ہوئی۔بحران کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں رہتے ہوئے ہی تعیناتی (کیمپس پلیسمنٹس) اور نئی نوکریاں کم ہوتے ہوتے ناپید ہوتی گئیں۔ماہرین کو ڈر ہے کہ اس صنعت میں مزید نوکریاں چلی جاسکتی ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے پہلے ہی بیمار آئی ٹی صنعت کیلئے (کورونا وائرس کی) وبا ایک اچانک دھچکے کی طرح آگئی ہے۔چونکہ کئی ممالک نے تالہ بندی کا راستہ اختیار کیا،دنیا بھر میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی خدمات مفلوج ہوکے رہ گئیں یہاں تک کہ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ کورونا کا بحران اکیلے بھارت میں 1.5 لاکھ نوکریوں کو کھا سکتا ہے۔ چونکہ آمدنی کم ہوگئی، کئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو نکال باہر کیا ہے جبکہ کئی نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی۔بیشتر بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی گھر سے کام کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی ہے البتہ نئے پروجیکٹ التوا میں پڑ گئے ہیں۔

بھارت کی تقریباََ 75 فیصد آئی ٹی خدمات یورپی اور امریکی مارکیٹ کو ہداف بنائے ہوئے چلتی ہیں،یہ دونوں مارکیٹ وبأ کے نتیجے میں تباہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔چناچہ فوری بحالی کے امکانات بہت کم ہیں لہٰذا آئی ٹی کے شعبہ میں مزید بربادی کا خدشہ باقی ہے یہاں تک کہ نئی تعیناتیاں اِکا دُکا ہی کہیں ہوسکتی ہیں۔خدشہ ہے کہ بعض صارف سرے سے ہی اپنے آنے والے پروجیکٹ منسوخ کرسکتے ہیں یا پھر کم از کم غیر معینہ مدت کیلئے اپنے منصوبوں کو معطل کرسکتے ہیں۔

آندھرا پردیش اور تلنگانہ آئی ٹی انیبلڈ خدمات کے شعبہ میں سب سے آگے ہیں۔آئی ٹی اور اس سے متعلق کورسز میں ہر سال طلاب کا داخلہ بڑھتا ہی جاتا ہے جبکہ ان دونوں ہی ریاستوں کے طلاب دنیا بھر میں کئی اہم آئی ٹی کمپنیوں میں اہم پوزیشنز پر ہیں۔ستیا ناڈیلابہت بڑی آئی ٹی کمپنی مائیکروسافٹ کے چیف ایکزیکٹیو افسر (سی ای او) ہیں۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے 6 لاکھ لوگ براہِ راست آئی ٹی شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔دونوں ریاستوں کی سرکاریں ڈیجیٹل خدمات اور الیکٹرانک گورننس (ای گورننس) کے حق میں ہیں۔ عالمی سطح پر مشہور کمپنیاں جیسے گوگل،مائیکروسافٹ،آئی بی ایم، اوریکل اور امیزون کے حیدرآباد میں بڑے بڑے کیمپسز ہیں۔وجے واڈا اور وشاکا پٹنم جیسے شہروں میں آئی ٹی شعبہ تیزی سے ترقی کرتا جارہا ہے۔

مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو لازماََ ایک پہل کرتے ہوئے آئی ٹی شعبہ پر سے بوجھ کم کرنے کے اقدام کرنے چاہیئے اور اس سمت میں آئی ٹی کے ماہرین اور پالیسی سازوں پر مشتمل اسپیشل ٹاسک فورس بنادیا جانا چاہیئے۔چونکہ استحکام کسی بھی شعبہ میں نہایت ہی اہمیت کا حامل رہتا ہے،سرکار کو کمپنیوں کو مستحکم ہونے میں مدد کو یقینی بنانا چاہیئے۔ ڈومسٹک آئی ٹی کو اختراعی ڈومینز ،جیسے گیمنگ،انیمیشن،الیکٹرانک مینوفیکچرنگ اور رورل تیکنالوجی، پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ ایک بار جب وبأ ختم ہوجائے کئی ممالک چین سے دیگر ممالک کو منتقل ہونے پر غور کرسکتی ہیں،بھارت کو اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔ تازہ پیشرفتوں کے ایک حصہ کے بطور مرکزی سرکار کو موجودہ پالیسیز کا سرِ نو جائزہ لیکر اصلاحات پر توجہ کرنی چاہیئے۔آئی ٹی کمپنیوں کو دوبارہ یقین دہانی کرائے جانے کی ضرورت ہے۔

مرکزی سرکار کو ان تنظیموں کو مدد کرنی چاہیئے کہ جو باالواسطہ یا بلا واسطہ موجودہ بحران سے متاثر ہوئی ہیں۔زمین،مزدور اور ٹیکس سے متعلق قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں اپنائی جانی چاہیئں۔میڈئم اینڈ سمال میڈئم انٹرپرائز (ایم ایس ایم ای) کو کریڈٹ گارنٹی دی جانی چاہیئے۔فقط درست اصلاحات، طویل المدتی اور پیچیدہ منصوبہ بندی ہی بھارت کے آئی ٹی شعبہ کو بحال کرسکتی ہے۔

اطلاعاتی ٹیکنالوجی ایک علم پر مبنی (نالیج بیسڈ) صنعت ہے جس کی انسانوں کی زندگی بدلنے میں بڑی حصہ داری ہے۔ منظم، فوری، آسان، شفاف اور خوشحال ہونے کے ساتھ ساتھ اس صنعت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے ’’اسٹارٹ اپ‘‘ شعبہ کو فروغ دیا ہے۔اسی صنعت نے جدید گورننس اور ڈیجیٹل دنیا کا راستہ کھولا ۔ بھارت نے آئی ٹی کے شعبہ میں لگ بھگ پانچ دہائیوں میں ایک مستحکم حیثیت حاصل کرلی ہے یہاں تک کہ ملک کی اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں یہ شعبہ بڑا کار آمد ثابت ہوا یہاں تک کہ یہ صنعت ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈٰ پی) کے 7.7 فیصد کے برابر ہے۔

بھارت،جس نے ماضیٔ قریب میں ایک قابلِ رشک ترقی کا راستہ دکھایا ہے،اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں ایک راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے پاس عالمی آئی ٹی خدمات (گلوبل آئی ٹی سروسز) کے 55 فیصد حصص ہیں ، 200 بھارتی آئی ٹی کمپنیاں دنیا بھر کے لگ بھگ 80 ممالک میں سرگرم ہیں جبکہ بھارت دنیا کی 75 فیصد ڈیجیٹل خدمات فراہم کرتا ہے۔ بھارت کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی صنعت کے حجم کا 2018-19 میں 181 بلین امریکی ڈالروں کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔اس میں 137 بلین امریکی ڈالروں کی مالیت کی درآمدگی شامل ہے۔بھارت کی آئی ٹی صنعت بتدریج وسعت پاتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کھینچ رہی ہے۔

سال 2000 اور 2019 کے درمیان ہارڈ وئیر اور سافٹ ویئر شعبوں میں 43 بلین امریکی ڈالروں کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ صنعت روزگار کے مواقعہ کے حوالے سے بھی وسیع ہوچکی ہے ۔داخلی طور پر بھارتی آئی ٹی شعبہ 46 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے جبکہ اسکے علاوہ مزید 20 لاکھ افراد بیرون ممالک کام کرتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں آئی ٹی نوکریوں کی ترجیحات کی فہرست میں اول نمبر پر رہتی آئی ہے۔ کیرئر کی ترقی اور پُر کشش مراعات کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت اس صنعت میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔

تیزی سے بلندیوں پر جانے والی آئی ٹی صنعت کو تاہم تنزلی میں اپنا حصہ لینا پڑا،مالی بحران،قیمتوں کو قابو کرنے کے اقدامات (کاسٹ کنٹرول میجرس) اور روبوٹ و اعدادو شمار کے جائزہ (روبوٹکس اینڈ ڈیٹا انالیٹکس) جیسی چیزوں نے آئی ٹی صنعت کے تنزل میں کردار نبھایا ہے۔

دراصل اس صنعت سے متعلق چیزیں تب ہی سے بدلنا شروع ہوگئی تھیں کہ جب سے ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ میں صدارتی عہدہ کیلئے منتخب ہوئے کیونکہ انہوں نے بعض ایسے فیصلے لئے جن کی وجہ سے آئی ٹی ماہرین اور اس صنعت میں روزگار تلاش کرنے والوں پر قیامت ثابت ہوئی۔بحران کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں رہتے ہوئے ہی تعیناتی (کیمپس پلیسمنٹس) اور نئی نوکریاں کم ہوتے ہوتے ناپید ہوتی گئیں۔ماہرین کو ڈر ہے کہ اس صنعت میں مزید نوکریاں چلی جاسکتی ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے پہلے ہی بیمار آئی ٹی صنعت کیلئے (کورونا وائرس کی) وبا ایک اچانک دھچکے کی طرح آگئی ہے۔چونکہ کئی ممالک نے تالہ بندی کا راستہ اختیار کیا،دنیا بھر میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی خدمات مفلوج ہوکے رہ گئیں یہاں تک کہ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ کورونا کا بحران اکیلے بھارت میں 1.5 لاکھ نوکریوں کو کھا سکتا ہے۔ چونکہ آمدنی کم ہوگئی، کئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو نکال باہر کیا ہے جبکہ کئی نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی۔بیشتر بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی گھر سے کام کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی ہے البتہ نئے پروجیکٹ التوا میں پڑ گئے ہیں۔

بھارت کی تقریباََ 75 فیصد آئی ٹی خدمات یورپی اور امریکی مارکیٹ کو ہداف بنائے ہوئے چلتی ہیں،یہ دونوں مارکیٹ وبأ کے نتیجے میں تباہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔چناچہ فوری بحالی کے امکانات بہت کم ہیں لہٰذا آئی ٹی کے شعبہ میں مزید بربادی کا خدشہ باقی ہے یہاں تک کہ نئی تعیناتیاں اِکا دُکا ہی کہیں ہوسکتی ہیں۔خدشہ ہے کہ بعض صارف سرے سے ہی اپنے آنے والے پروجیکٹ منسوخ کرسکتے ہیں یا پھر کم از کم غیر معینہ مدت کیلئے اپنے منصوبوں کو معطل کرسکتے ہیں۔

آندھرا پردیش اور تلنگانہ آئی ٹی انیبلڈ خدمات کے شعبہ میں سب سے آگے ہیں۔آئی ٹی اور اس سے متعلق کورسز میں ہر سال طلاب کا داخلہ بڑھتا ہی جاتا ہے جبکہ ان دونوں ہی ریاستوں کے طلاب دنیا بھر میں کئی اہم آئی ٹی کمپنیوں میں اہم پوزیشنز پر ہیں۔ستیا ناڈیلابہت بڑی آئی ٹی کمپنی مائیکروسافٹ کے چیف ایکزیکٹیو افسر (سی ای او) ہیں۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے 6 لاکھ لوگ براہِ راست آئی ٹی شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔دونوں ریاستوں کی سرکاریں ڈیجیٹل خدمات اور الیکٹرانک گورننس (ای گورننس) کے حق میں ہیں۔ عالمی سطح پر مشہور کمپنیاں جیسے گوگل،مائیکروسافٹ،آئی بی ایم، اوریکل اور امیزون کے حیدرآباد میں بڑے بڑے کیمپسز ہیں۔وجے واڈا اور وشاکا پٹنم جیسے شہروں میں آئی ٹی شعبہ تیزی سے ترقی کرتا جارہا ہے۔

مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو لازماََ ایک پہل کرتے ہوئے آئی ٹی شعبہ پر سے بوجھ کم کرنے کے اقدام کرنے چاہیئے اور اس سمت میں آئی ٹی کے ماہرین اور پالیسی سازوں پر مشتمل اسپیشل ٹاسک فورس بنادیا جانا چاہیئے۔چونکہ استحکام کسی بھی شعبہ میں نہایت ہی اہمیت کا حامل رہتا ہے،سرکار کو کمپنیوں کو مستحکم ہونے میں مدد کو یقینی بنانا چاہیئے۔ ڈومسٹک آئی ٹی کو اختراعی ڈومینز ،جیسے گیمنگ،انیمیشن،الیکٹرانک مینوفیکچرنگ اور رورل تیکنالوجی، پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ ایک بار جب وبأ ختم ہوجائے کئی ممالک چین سے دیگر ممالک کو منتقل ہونے پر غور کرسکتی ہیں،بھارت کو اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔ تازہ پیشرفتوں کے ایک حصہ کے بطور مرکزی سرکار کو موجودہ پالیسیز کا سرِ نو جائزہ لیکر اصلاحات پر توجہ کرنی چاہیئے۔آئی ٹی کمپنیوں کو دوبارہ یقین دہانی کرائے جانے کی ضرورت ہے۔

مرکزی سرکار کو ان تنظیموں کو مدد کرنی چاہیئے کہ جو باالواسطہ یا بلا واسطہ موجودہ بحران سے متاثر ہوئی ہیں۔زمین،مزدور اور ٹیکس سے متعلق قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں اپنائی جانی چاہیئں۔میڈئم اینڈ سمال میڈئم انٹرپرائز (ایم ایس ایم ای) کو کریڈٹ گارنٹی دی جانی چاہیئے۔فقط درست اصلاحات، طویل المدتی اور پیچیدہ منصوبہ بندی ہی بھارت کے آئی ٹی شعبہ کو بحال کرسکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.