ETV Bharat / business

آر سی ای پی کیا ہے اور بھارت کیوں نہیں ہوا شامل؟

آر سی ای پی میں بھارت بھی شامل تھا۔ لیکن بھارت اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر آر سی ای پی سے نکل گیا۔ تاہم معاہدے میں بھارت کی شمولیت کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

author img

By

Published : Nov 16, 2020, 3:42 PM IST

what is rcep and why india did not join it
what is rcep and why india did not join it

نئی دہلی: 'ریجنل کمپریہنسیو اکنامک پارٹنرشپ' (آر سی ای پی) جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے آسیان کے 10 رکن ممالک اور چین سمیت 15 ممالک کے درمیان تجارتی معاہدہ ہے۔ اس تجارتی معاہدے کا مقصد آر سی ای پی میں شامل ممالک کے مابین تجارت کو آسان بنانا ہے۔

خیال رہے کہ آر سی ای پی میں بھارت بھی شامل تھا۔ لیکن بھارت نے اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر آر سی ای پی سے نکل گیا۔ تاہم معاہدے میں بھارت کی شمولیت کا آپشن کھلا رکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ آر سی ای پی کے قیام کے بارے میں سب سے پہلے سنہ 2011 میں بالی میں ہونے والے آسیان سربراہ اجلاس میں پیش کیا گیا، جس میں اتوار کے روز چین، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سمیت 10 آسیان ممبر ممالک نے دستخط کیے۔

آسیان میں انڈونیشیا، ملائشیا، ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی، سنگاپور اور فلپائن شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آر سی ای پی معاہدہ چین کے لیے بہت اہم ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ چین ان میں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ جبکہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی تنازعات کی وجہ سے چین کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ چین آر سی ای پی میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے کیونکہ امریکہ کے نومنتخب صدر کی طرف سے ابھی تک کوئی اشارہ نہیں مل سکا ہے کہ وہ چین کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو واپس لے لیں گے یا نہیں۔

بھارت اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر آر سی ای پی معاہدے میں شامل نہیں ہوا ہے کیونکہ بھارت کو اس میں شامل ہونے کے لیے اپنی مارکیٹ کھولنی ہوگی، جس سے توقع کی جارہی تھی کہ چین سے سستی مصنوعات کی درآمد میں اضافہ ہوگا جس سے گھریلو صنعت اور کاروبار متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو زراعت اور دودھ سے متعلق کاروبار کو بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے سستے دودھ اور دیگر دودھ کی مصنوعات کے داخلے سے ملک کے کسانوں اور دودھ کے تاجروں کو نقصان ہوسکتا ہے۔

نئی دہلی: 'ریجنل کمپریہنسیو اکنامک پارٹنرشپ' (آر سی ای پی) جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے آسیان کے 10 رکن ممالک اور چین سمیت 15 ممالک کے درمیان تجارتی معاہدہ ہے۔ اس تجارتی معاہدے کا مقصد آر سی ای پی میں شامل ممالک کے مابین تجارت کو آسان بنانا ہے۔

خیال رہے کہ آر سی ای پی میں بھارت بھی شامل تھا۔ لیکن بھارت نے اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر آر سی ای پی سے نکل گیا۔ تاہم معاہدے میں بھارت کی شمولیت کا آپشن کھلا رکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ آر سی ای پی کے قیام کے بارے میں سب سے پہلے سنہ 2011 میں بالی میں ہونے والے آسیان سربراہ اجلاس میں پیش کیا گیا، جس میں اتوار کے روز چین، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سمیت 10 آسیان ممبر ممالک نے دستخط کیے۔

آسیان میں انڈونیشیا، ملائشیا، ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی، سنگاپور اور فلپائن شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آر سی ای پی معاہدہ چین کے لیے بہت اہم ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ چین ان میں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ جبکہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی تنازعات کی وجہ سے چین کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ چین آر سی ای پی میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے کیونکہ امریکہ کے نومنتخب صدر کی طرف سے ابھی تک کوئی اشارہ نہیں مل سکا ہے کہ وہ چین کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو واپس لے لیں گے یا نہیں۔

بھارت اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر آر سی ای پی معاہدے میں شامل نہیں ہوا ہے کیونکہ بھارت کو اس میں شامل ہونے کے لیے اپنی مارکیٹ کھولنی ہوگی، جس سے توقع کی جارہی تھی کہ چین سے سستی مصنوعات کی درآمد میں اضافہ ہوگا جس سے گھریلو صنعت اور کاروبار متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو زراعت اور دودھ سے متعلق کاروبار کو بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے سستے دودھ اور دیگر دودھ کی مصنوعات کے داخلے سے ملک کے کسانوں اور دودھ کے تاجروں کو نقصان ہوسکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.