سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کو چھ ماہ کے اندر بینکوں میں لاکر سہولت کے انتظام سے متعلق ضوابط میں رہنما ہدایات وضع کرنے کا حکم دیا۔ عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر کہا کہ بینک لاکر رواج سے منہ نہیں موڑ سکتے'۔
جسٹس ایم ایم شانتنا گودر اور جسٹس ونیت سرن کی بنچ نے کہا کہ گلوبلائزیشن کے ساتھ بینک اداروں نے عام لوگوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ گھریلو اور بین الاقوامی معاشی لین دین کئی گنا بڑھا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ لوگ گھروں پر اثاثے (نقد اور زیورات وغیرہ) رکھنے سے ہچکچا رہے ہیں، کیوں کہ ہم آہستہ آہستہ کیش لیس معیشت کی طرف گامزن ہیں۔
بنچ نے کہا کہ 'بینکوں کے لاکر ایک ضروری سروس بن گئے ہیں۔ اس قسم کی خدمات کا فائدہ شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی شہری بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگرچہ الیکٹرانک لاکر ایک آپشن موجود ہے، لیکن اس میں چھیڑ چھاڑ کی گنجائش ہے، نیز اگر لوگ تکنیکی طور پر جانکاری نہیں رکھتے ہیں تو پھر ان کے لیے ایسے لاکر کو چلانا مشکل ہوگا۔
بنچ نے کہا کہ' صارفین مکمل طور پر بینک پر انحصار کرتے ہیں، جو اپنی املاک کی تحفظ کے لیے ایک بہت ہی قابل اعتماد ادارہ ہے۔'
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ "ایسی صورتحال میں بینک اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور یہ دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں کہ لاکر چلانے کے لیے وہ ذمہ دار نہیں ہے"۔
بنچ نے کہا "بینکوں کا یہ اقدام نہ صرف صارف تحفظ قانون کی متعلقہ دفعات کی خلاف ورزی ہے، بلکہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت کی حیثیت سے سرمایہ کاروں کے اعتماد اور ہماری ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔"
عدالت نے کہا کہ "لہذا یہ ضروری ہے کہ آر بی آئی ایک جامع ضابطہ بنائے، جس میں یہ حکم دیا جائے کہ لاکر کے تناظر میں بینکوں کو کیا اقدامات اٹھانا چاہیے۔" عدالت عظمی نے کہا کہ' بینکوں کو یہ آزادی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ صارفین پر یک طرفہ اور غیر ضروری شرائط تھوپیں'۔
بنچ نے آر بی آئی کو اس سلسلے میں چھ ماہ میں مناسب اصول بنانے کی ہدایت دی۔"
عدالت کا یہ فیصلہ کولکاتا کے امیتابھ داس گپتا کی اپیل پر آیا ہے۔ داس گپتا نے قومی صارفین تنازعات طے کرنے والے کمیشن کے حکم کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔