تیل پیدا کرنے والی دو بڑی طاقتوں سعودی عرب اور روس کے درمیان پیداوار میں کٹوتی کو لے کر رضامندی نہیں بن پانے کے بعد سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں پر جنگ چھیڑ دیا ہے۔ اس کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں پیر کے روز 30 فیصد گراوٹ درج کی گئی، جو سنہ 1991 کے خلیجی جنگ کے بعد سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس جنگ میں کون پہلے ہار مانتا ہے۔
سعودی عرب نے خام تیل کی قیمت کم کرنے کے ساتھ یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ اس کی پیداوار میں اضافہ کر دے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں ایک تہائی گر گئی تھیں۔ دونوں ملکوں کی سرکاری آئل کمپنیوں سعودی آرامکو اور روسنیفٹ کے شیئرز بھی بری طرح متاثر ہوئے ان کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔
دنیا کے ان دو بڑے تیل برآمد کنندگان نے کسی بھی 'معاشی جھٹکے' سے بچنے کے لیے تقریبا پانچ پانچ سو بلین ڈالر کے ذخائر جمع کر لیے ہیں۔ پیر کے روز ماسکو حکام کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی قیمتیں فی بیرل پچیس سے تیس ڈالر تک بھی گر جائیں تو بھی وہ چھ سے دس برس تک اس کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
روسی ذرائع کے مطابق روس تیس ڈالر فی بیرل برداشت تو کر سکتا ہے لیکن اسے خام تیل سے ہونے والی آمدنی کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے مزید خام تیل فروخت کرنا پڑے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جنگ جتنی طویل ہوتی جائے گی، دونوں ملکوں کو نقصان بھی اتنا زیادہ ہو گا اور انہیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ تاہم دوسری جانب ان دونوں ممالک کی اس کشمکش سے بھارت سمیت دیگر ایسے ممالک جو اپنی توائی ضروریات کے لیے دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے انہیں فائد ہو گا'۔
واضح رہے کہ کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے، دنیا بھر میں تیل کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے، اوپیک ممالک کرونا وائرس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات کو روکنے کے لئے پیداوار میں کمی لانا چاہتے تھے اور جمعہ کے روز اس کی روس کے ساتھ میٹنگ ہوئی لیکن روس نے کورونا وائرس کے اثر سے نمٹنے کے لیے پیداور میں کمی کرنے سے انکار کردیا۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی بھارت کے لیے خوشخبری ہوسکتی ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے بھارت میں پٹرول ڈیزل میں فی لیٹر 5-6 روپے سستی ہوسکتی ہے۔ بتادیں کہ بھارت اپنی گھریلو تیل کی ضروریات کا 83 فیصد درآمد کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ قیمتیں 2020 تک بڑھ جائیں تو ملک اپنے تیل کی درآمدی بل میں 30 سے 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت کرسکتا ہے۔