مسٹر سنگھ نے بجٹ پر کانگریس کے رہنما پی چدمبرم کی طرف سے شروع کی گئی بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ بات کہی اور انہوں نے ان کی اس بات کو بے بنیاد بتایا کہ ملک کی معیشت آئی سی یو میں ہے۔'
مسٹر سنگھ نے بجٹ پر حکمران فریق کی جانب سے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'اس وقت سب سے بڑی معیشت امریکہ کی ہے جو 21.4 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ چوتھی معیشت جرمنی کی ہے جو 3.9 ٹریلین ڈالر ہے اور بھارت کی 2.9 ٹریلین ڈالر ہے لیکن وہ ایک دو برس کے اندر ہی جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر چوتھے نمبر پر آ جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کے 100 اعلیٰ بینکوں میں پہلے ایک بھی بھارتی بینک نہیں تھا جبکہ اتنے بڑے بڑے ماہر اقتصادیات تھے لیکن مودی حکومت کے دور میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا سو ٹاپ بینکوں میں آ گیا جبکہ پڑوسی ملک چین میں 18 جاپان میں آٹھ بینک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار نے بینکوں کا ادغام کر کے بینکنگ نظام کو مضبوط بنایا ہے'۔
مسٹر سنگھ نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے سو لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے ملک کی ترقی تو ہو گی ہی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے ٹیکس نظام کو بہتر بنایا ہے اور گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کا نفاذ کر کے معیشت کو مضبوط بنایا اور ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا ہے لیکن حزبِ اختلاف نے جی ایس ٹی کے معاملے میں گبر سنگھ ٹیکس کہہ کر حکومت کو بدنام کیا۔ جبکہ آج 60 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان بنے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے آیوشمان بھارت سے غریبوں کو مفت علاج کے لیے بیمہ کی سہولت فراہم کرکے حساس حکومت کا ثبوت دیا جو اس بجٹ کے تین بنیادی اصولوں میں سے ایک ہیں۔ بی جے پی رکن پارلیمان نے سوچھ بھارت مہم اور بینکوں کی دھوکہ دہی روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بجٹ تقریر کا اختتام کیا۔