ETV Bharat / business

عالمی تجارتی تنظیم کا امریکہ کے حق میں فیصلہ - ڈبلیو ٹی او پینل

بھارت ۔ امریکہ کے درمیان تجارت سے متعلق ایک معاملے میں عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او ) نے امریکہ کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔

ڈزائن تصویر
author img

By

Published : Nov 2, 2019, 9:18 PM IST

ڈبلیو ٹی او نے اعتراف کیا ہے کہ 'بھارت سے امریکہ میں برآمد کی جانے والی مصنوعات پر جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ ضابطے کے خلاف ہے۔'

واضح رہے کہ بھارت کی اس سبسڈی کا تخمینہ 700 کروڑ ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ ڈبلیو ٹی او پینل نے کہا کہ 'بھارت کی جانب سے برآمدات پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ وہ اسٹیل، کیمیائی، ٹیکسٹائل اور ادویات سے متعلق مصنوعات پر ہیں۔

امریکہ نے سنہ 2018 میں یہ معاملہ عالمی تجارتی تنظیم کے سامنے اٹھایا تھا۔ امریکہ کے مطابق بھارت کی برآمد کردہ اشیاء کو دی جانے والی سبسڈی غیر قانونی ہے اور اس کی وجہ سے امریکہ کی صنعت اور مزدوروں کو نقصان ہورہا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ 'بھارت اب معاشی میدان میں ایک مضبوط طاقت بن چکا ہے اور اسے سبسڈی نہیں دینا چاہیے۔ عالمی تجارتی تنظیم کا یہ فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ بھارت اپنی زیادہ تر اشیاء امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ بھارت کی کل برآمدات کا تقریباً 16 فیصد امریکہ میں ہو تا ہے۔'

یاد رہے کہ سنہ 2015 سے 2017 کے درمیان بھارت کی مجموعی قومی پیداوار( جی ڈی پی) ایک ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، جس پر ڈبلیو ٹی او کو لگا کہ بھارت اب سبسڈی کا زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا لیکن اس معاملے میں بھارت کا موقف یہ تھا کہ جب ایک ترقی پذیر ملک ایک ہزار ڈالر کا ہدف عبور کرتا ہے تو اس کی سبسڈی ختم کرنے کے لیے انہیں آٹھ برس کا وقت دیا جاتا ہے، جسے منتقلی کی مدت کہا جاتا ہے۔

بھارت اور امریکہ کے مابین بہت سے تجارتی معاہدے ہوئے ہیں، اب ڈبلیو ٹی او کا یہ فیصلہ بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات میں ایک نیا موڑ لا سکتا ہے۔

رواں برس کے شروعات میں امریکہ نے اپنے بازار میں بھارت کو دی جانے والی رعایت کو ختم کردی تھی، جس پر ہنگامہ بھی ہوا تھا۔

امریکہ مسلسل یہ کہ رہا ہے کہ 'بھارت امریکی اشیا پر برآمد ٹیکس (ٹیرف) کم کرے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی خسارے کے فرق کو کم کیا جا سکے'۔

ماہریں کے مطابق بھارت کی موجودہ معاشی صورتحال بھی بہت اچھی نہیں ہے اور ایسی صورتحال میں بھارتی اشیاء پر ڈبلیو ٹی او کے فیصلے سے بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈبلیو ٹی او نے اعتراف کیا ہے کہ 'بھارت سے امریکہ میں برآمد کی جانے والی مصنوعات پر جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ ضابطے کے خلاف ہے۔'

واضح رہے کہ بھارت کی اس سبسڈی کا تخمینہ 700 کروڑ ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ ڈبلیو ٹی او پینل نے کہا کہ 'بھارت کی جانب سے برآمدات پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ وہ اسٹیل، کیمیائی، ٹیکسٹائل اور ادویات سے متعلق مصنوعات پر ہیں۔

امریکہ نے سنہ 2018 میں یہ معاملہ عالمی تجارتی تنظیم کے سامنے اٹھایا تھا۔ امریکہ کے مطابق بھارت کی برآمد کردہ اشیاء کو دی جانے والی سبسڈی غیر قانونی ہے اور اس کی وجہ سے امریکہ کی صنعت اور مزدوروں کو نقصان ہورہا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ 'بھارت اب معاشی میدان میں ایک مضبوط طاقت بن چکا ہے اور اسے سبسڈی نہیں دینا چاہیے۔ عالمی تجارتی تنظیم کا یہ فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ بھارت اپنی زیادہ تر اشیاء امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ بھارت کی کل برآمدات کا تقریباً 16 فیصد امریکہ میں ہو تا ہے۔'

یاد رہے کہ سنہ 2015 سے 2017 کے درمیان بھارت کی مجموعی قومی پیداوار( جی ڈی پی) ایک ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، جس پر ڈبلیو ٹی او کو لگا کہ بھارت اب سبسڈی کا زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا لیکن اس معاملے میں بھارت کا موقف یہ تھا کہ جب ایک ترقی پذیر ملک ایک ہزار ڈالر کا ہدف عبور کرتا ہے تو اس کی سبسڈی ختم کرنے کے لیے انہیں آٹھ برس کا وقت دیا جاتا ہے، جسے منتقلی کی مدت کہا جاتا ہے۔

بھارت اور امریکہ کے مابین بہت سے تجارتی معاہدے ہوئے ہیں، اب ڈبلیو ٹی او کا یہ فیصلہ بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات میں ایک نیا موڑ لا سکتا ہے۔

رواں برس کے شروعات میں امریکہ نے اپنے بازار میں بھارت کو دی جانے والی رعایت کو ختم کردی تھی، جس پر ہنگامہ بھی ہوا تھا۔

امریکہ مسلسل یہ کہ رہا ہے کہ 'بھارت امریکی اشیا پر برآمد ٹیکس (ٹیرف) کم کرے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی خسارے کے فرق کو کم کیا جا سکے'۔

ماہریں کے مطابق بھارت کی موجودہ معاشی صورتحال بھی بہت اچھی نہیں ہے اور ایسی صورتحال میں بھارتی اشیاء پر ڈبلیو ٹی او کے فیصلے سے بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.